دعا و اذکار منسونہ

361

دعا عین عبادت ہے اور جب الفاظِ دعا پاک نبیؐ کے سکھائے ہوئے ہوں، تو ان کی اہمیت دو چند نہیں سو چند ہو جاتی ہے۔ خدا کا ارشاد ہے کہ میرا نبی وہی کہتا ہے، جو اسے وحی کے ذریعے سکھایا جاتا ہے۔ گویا زبانِ مبارک نبی کی ہے، لیکن تعلیم اْس خدا کی ہے۔ پھر دعا نام ہے عاجزی و مسکنت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا، اس یقین کے ساتھ کہ سب کچھ اسی کے قبضے میں ہے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی حاجت طلب کرنے کے لیے مسنون و ماثور دعاؤں کو اپنائیں۔ مسنون و ماثور دعاؤں کی قدر وقیمت اور اہمیت و افادیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟ زبانِ نبوت سے جاری ہونے والی دعاؤں کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ ان کی قبولیت کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور ان دعاؤں کے الفاظ و مفاہیم پر غور کیجیے تو اپنی عبودیت اور خدا کی ربوبیت کا احساس شدید تر ہوتا ہے اور دل گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے پاک نبی نے جن الفاظ کے ساتھ جس موقع پر جو دعا سکھلائی ہے، اس موقع پر ان سے بہتر الفاظ نہیں کہے جا سکتے۔
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: ذکرِ الٰہی وہ درخت ہے جو معارف اور ان احوال کا پھل دیتا ہے جن کی طرف سالکین کمر باندھتے ہیں اور ان معارف واحوال کو ذکرِ الٰہی کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ جب کبھی یہ درخت بڑاہو گا اور اس کی جڑ مضبوط ہوگی تو اس کا پھل مزید بڑھے گا۔ لہٰذا ذ کرِ الٰہی ہر مقام کا ثمر دیتا ہے، مثلاً توحید کی بیداری؛ جو کہ ہر مقام کی جڑ ہے ، اور اس کی بنیاد ہے، جس پر وہ مقام کھڑا کیا جاتا ہے، جس طرح دیوار اپنی بنیاد پر کھڑی کی جاتی ہے اور چھت دیواروں پر کھڑی کی جاتی ہے۔ اذکارِ مسنونہ بہترین فوائد اور بلند مقاصد پر مشتمل ہیں اور ان میں خیر، نفع، برکت، اچھے فوائد اور عظیم نتائج سموئے ہوئے ہیں، جن کا نہ تو کسی انسان کے لیے احاطہ کرنا ممکن ہے اور نہ ہی ان کو زبان سے بیان کرنا ممکن ہے۔
مسنون دعائیں علوم کا ایک جہاں
نبیٔ اقدسﷺ کی مانگی ہوئی دعائیں علوم کا ایک جہاں ہیں، اگر انسان صرف نبی اقدسﷺ کی مانگی ہوئی دعاؤں کو غور سے پڑھ لے تو آپؐ کے سچا رسول ہونے میں کوئی ادنیٰ شبہ نہ رہے، یہ دعائیں بہ ذاتِ خود نبی کریمﷺ کی رسالت کی دلیل ہیں اور آپؐ کا معجزہ ہیں، کیوں کہ کوئی بھی انسان اپنی ذاتی عقل اور ذاتی سوچ سے ایسی دعائیں مانگ ہی نہیں سکتا، جیسی دعائیں نبی کریمؐ نے مانگیں اور اپنی امت کو وہ دعائیں تلقین فرمائیں۔ ایک ایک دعا ایسی ہے کہ انسان اس دعا پر قربان ہوجائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دعائیں اللہ کی طرف سے نبی اقدسﷺ پر الہام ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہی آپؐ کے قلب پر القا فرمایا کہ مجھ سے یوں مانگو! اللہ تعالیٰ کی شان بھی عجیب وغریب ہے کہ دینے والے اور عطا کرنے والے بھی خود ہیں اور بندے کو دعا کا طریقہ بھی خود سکھاتے ہیں۔
نجات دینے اور مہلکات سے بچانے والی
ملا علی قاریؒ نے مسنون دعاو اذکار کا ایک مستند مجموعہ …الحزب الاعظم والورد الافخم… (دعاوں کا بڑا مجموعہ اور عظیم الشان وظائف) کے نام سے ترتیب دیا اور مقدمے میں تحریر فرمایا: اس کا نام میں نے الحزب الاعظم اس لیے تجویز کیا کہ ان دعاوں کی نسبت رسولِ اکرمؐ کی جانب ہے، لہٰذا آپ ان کے الفاظ کا خوب خیال رکھیں، معانی پر غور کریں اور ان مضامین پر عمل کریں، کیوں کہ اس مجموعے میں وہ تمام دعا ئیں شامل ہیں جو آپ کو نجات دینے اور مہلکات سے بچانے والی ہیں، کیوں کہ آپؐ نے کوئی عمدہ خصلت اور اچھی عادت ایسی نہیں چھوڑی جس کی آپ نے دعا نہ کی ہو اور کوئی برا کام اور بری خصلت ایسی نہیں چھوڑی، جس سے آپؐ نے اللہ کی پناہ نہ مانگی ہو۔
مسنون دعاؤں کے دو پہلو
ان دعاؤں کی اہمیت و افادیت کے دو پہلووں کا ذکر کرتے ہوئے مولانا محمد منظور نعمانیؒ لکھتے ہیں: ان دْعاؤں کی قدر و قیمت اور افادیت کا ایک عام عملی پہلو تو یہ ہے کہ ان سے دعا کرنے اور اللہ سے اپنی حاجتیں مانگنے کا سلیقہ اور طریقہ معلوم ہوتا ہے اور اس باب میں وہ راہ نمائی ملتی ہے جو کہیں سے نہیں مل سکتی اور ایک دوسرا خاص عملی اور عرفانی پہلو یہ ہے کہ ان سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہؐ کی روحِ پاک کو اللہ تعالیٰ سے کتنی گہری اور ہمہ وقتی وابستگی تھی اور آپ کے قلب پر اس کا جلال و جمال کس قدر چھایا ہوا تھا اور اپنی اور ساری کائنات کی بے بسی اور لاچاری اور اس مالک الملک کی قدرتِ کاملہ اور ہمہ گیر رحمت و ربوبیت پر آپ کو کس درجے یقین تھا کہ گویا یہ آپ کے لیے غیب نہیں شہود تھا۔ حدیث کے ذخیرے میں رسول اللہؐ کی جو سیکڑوں دعائیں محفوظ ہیں، ان میں اگر تفکر کیا جائے تو کھلے طور پر محسوس ہو گا کہ ان میں سے ہر دعا معرفتِ الٰہی کا شاہ کار اور آپ کے کمالِ روحانی و خدا آشنائی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپؐ کے صدقِ تعلق کا مستقل برہان ہے اور اس لحاظ سے ہر ماثور دْعا بجائے خود آپ کا ایک روشن معجزہ ہے۔ اس عاجز راقم سطور کا دستور ہے کہ جب کبھی پڑھے لکھے اور سمجھ دار غیر مسلموں کے سامنے رسول اللہؐ کا تعارف کرانے کا موقع ملتا ہے تو آپؐ کی کچھ دعائیں ان کو ضرور سناتا ہوں۔ قریب قریب سو فی صد تجربہ ہے کہ وہ ہر چیز سے زیادہ آپؐ کی دعاؤں سے متاثر ہوتے ہیں اور آپؐ کے کمالِ خدا رسی و خدا شناسی میں ان کو شبہ نہیں رہتا۔ (معارف الحدیث)
ان دعاؤں میں نبوت کا نور ہے
ان دعاؤں میں کیا جواہر موجود ہیں، اس کا ادراک صاحب ِدل ہی کر سکتا ہے اور ان کی صحیح قدردانی اسے ہی نصیب ہو سکتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا کوئی حصہ نصیب ہو۔ یہ دعائیں دلائلِ نبوت، معجزاتِ نبوت اور نورِ نبوت کی آئینہ دار ہیں۔ بہ قول مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ: یہ دعائیں مستقل معجزات اور دلائلِ نبوت ہیں، ان کے الفاظ شہادت دیتے ہیں کہ وہ ایک پیغمبر ہی کی زبان سے نکلے ہیں۔ ان میں نبوت کا نور ہے، پیغمبر کا یقین ہے، عبدِ کامل کا نیاز ہے، محبوب رب العالمین کا اعتماد و ناز ہے، فطرتِ نبوت کی معصومیت و سادگی ہے، دلِ دردمند و قلبِ مضطر کی بے تکلفی و بے ساختگی ہے، صاحبِ غرض و حاجت مند کا اصرار و اضطرار بھی ہے اور بارگاہِ الوہیت کے ادب شناس کی احتیاط بھی۔ دل کی جراحت اور درد کی کسک بھی ہے اور چارہ ساز کی چارہ سازی اور دل نوازی کا یقین و سرور بھی۔
(سیرتِ محمدی دعاؤں کے آئینے میں)