نا قابل ِ فراموش حقیقت

352

کسی بھی قوم کی ترقی کا دار ومدار علم اور تعلیم پر ہوتا ہے۔ غذا کی طرح حصولِ علم و فن بھی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے، ہر انسان کو تمام عمر تحقیق اور مطالعے کا عمل جاری رکھنا چاہیے ہمارا ماضی ایسی قد آور اور قابل شخصیات سے بھرا پڑا ہے جو اپنی تمام عمر علوم و فنون کی ترویج میں مصروف رہے۔ ایک عالم ان سے استفادہ کرتا رہا اور آج تک کر رہا ہے۔ وہ لوگ غور وفکر اور مشاہدے میں آزاد تھے اور ان کے نزدیک میرٹ ہی ایک معیار تھا اہلیت اور قابلیت ہی میرٹ تھا اسی سبب ہمارے اکابر اساتذہ اور ان کی قائم کردہ درس گاہوں کو ایک مستند مقام حاصل تھا، مختلف شعبوں میں ان کی تحقیقات کو دنیا تسلیم کرتی تھی لیکن آج ہمارا نظامِ تعلیم آزادی ٔ فکر اور میرٹ سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں پائے جانے والے نقائص ہمیں بہت دور لے جارہے ہیں مخصوص نصاب نے طلبہ کو محض رٹنے کی جانب
دھکیل دیا ہے۔ سیاسی مداخلت، بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم، سرکاری اداروں میں اساتذہ کے غیر ضروری تبادلے ایک الگ مشکل ہے اکثر اوقات نصاب میں ایسے موضوعات بھی شامل کر دیے جاتے ہیں جن کی نہ ضرورت ہوتی ہے اور نہ اہمیت، جس سے مشاہدہ، تجربہ اور ذاتی غور وفکر کے مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ ملک کے کل جی ڈی پی کا کم از کم پانچ فی صد حصہ تعلیمی اور تحقیقاتی اداروں کے لیے مختص کرے مگر ایسا ہوتا نہیں تعلیمی نظام کے نقائص میں ایک نقص ایجوکیشنل کونسلنگ کی کمی بھی ہے، اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال پاکستان کی شرح خواندگی 59.13فی صد ہے جو غیر معمولی طور پر کم ہے اس امر کی ضرورت ہے کہ اہل وطن کو علم اور تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے۔ فرمان ِ پیغمبر ِ مکرمؐ بھی ہماری ہدایت کے لیے موجود ہے کہ ’’علم کی طلب ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے‘‘ ہر دور کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے جس کے تحت اس چیز کی ضرورت ہے کہ نصاب میں وقت کے ساتھ ساتھ ضروری تبدیلیاں لائی جائیں۔ ہمارا نصاب آج بھی وہیں کا وہیں ہے جہاں نصف صدی قبل تھا نئے دور کی تعلیمی ضروریات کے تحت ملک میں ایک
اپ ٹو ڈیٹ نصاب رائج کرنے کی ضرورت ہے اس امرکی طرف بھی توجہ دینا لازم ہے کہ طلبہ کو اپنے فہم، عمر اور دلچسپی کی بنا پر مضامین اور مخصوص موضوعات پڑھنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ پیشہ وارانہ زندگی میں اپنی پڑھائی کو بروئے کار لا سکیں آخر میں ایک اور اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائیں گے کہ ہماری قومی زبان اردو کی تدریس کو بھی یقینی بنایا جائے ملک کا اکثر نصاب انگریزی میں ہے حالانکہ تعلیمی نصاب ایسی زبان میں مرتب کیا جانا چاہیے جو معلم اور متعلم دونوں کے لیے قابل فہم ہو طلبہ کی ایک بڑی جماعت قومی زبان میں پڑھائی کو ترجیح دیتی ہے، لہٰذا حکومت انٹرمیڈیٹ کے بعد کے کورسز میں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کتب بھی فراہم کی جائیں اور اہم کتب اور ریسرچ پیپرز کے اردو تراجم کیے جائیں تاکہ تمام طلبہ نصاب سے یکساں مستفید ہو سکیں۔