بلوچستان کا ساحلی حصہ گوادر اور اس سے ملحقہ علاقے 1958میں حکومت پاکستان نے سلطنت عمان سے خریدا تھا اور اس کی خریداری سے قبل 1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے میں اس ساحلی علاقے میں ایک بڑی قدرتی بندرگاہ بننے کی صلاحیت کے بارے میں آگاہی فراہم کردی گئی تھی اور گودار کو ڈیپ سی پورٹ کے لیے بہترین مقام قرار دیا گیا تھا۔ 2002 میں حکومت پاکستان نے 24کروڑ ڈالر کی لاگت سے یہ منصوبہ مکمل کیا۔ حکومت پاکستان نے اس بندرگاہ کو چلانے کے لیے پہلے اس کا ٹھیکہ سنگاپور کی ایک کمپنی کو بین الاقوامی بولی کے بعد دیا اور پھر 2013 میں حکومت پاکستان نے اس بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکا ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری کی باتیں سامنے آرہی تھیں۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ چینی حکومت پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کا ارداہ ظاہر کر رہی ہے اور اس منصوبے کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا نام دیا گیا جو بنیادی طور پر خنجراب کے ذریعے چین کو گودارکی بندرگاہ سے ملانے کا منصوبہ تھا۔ اس معاہدے پر 2015 میں دستخط ہوئے اور اس منصوبے کے تحت سڑکیں، ریلوے لائن، بجلی کے منصوبوں کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شامل تھے۔
چونکہ یہ راہداری گودار سے شروع ہوتی ہے اور اس علاقے کے لیے اس کی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حکومت جہاں گوادرکے لیے تجویز کردہ ترقیاتی منصوبوں پر بڑے فخر کا اظہار کرتی ہے وہیں گودار کی مقامی آبادی کے خدشات، اعتراضات اور شکایات بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ وہاں کے عوام کا کہنا ہے کہ گودار بندرگاہ کے قیام سے صدیوں سے آباد یہاں کی مقامی آبادی براہ راست متاثر ہورہی ہے اور یہاں کے عوام کو ان کا حق نہیں دیا جارہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکورٹی کے نام پر ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان کے سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے ذاتی طور پر علاقے کی تمام سیاسی سماجی پارٹیوں کو جمع کر کے ایک بڑا اور تاریخی جلسہ شہداء جیوانی چوک پر کیا جو گوادر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا اور اس جلسے میں بلاشبہ ہزاروں افراد نے شرکت کی جس میں بڑی تعداد میں ماہی گیر اور نوجوانوں سمیت ہر مکاتب فکر کے افراد شامل تھے۔ جلسہ ٔ عام میں لوگوں نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف پلے کارڈ اور بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ گودار کے عوام آج بیدار ہوچکے ہیں اور اب ہم اپنی تذلیل کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کرینگے۔ ترقی کے نام پر ہمارے قبرستان اور اسپتالوں میں فوجی پہرے دار کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ گودار بندرگاہ نے مقامی آبادی کو کچھ نہیں دیا سوائے اس کے کہ ’’کہاں جا رہے ہو اور کہاں سے آرہے ہو‘‘ کے سوالات۔ ان چیک پوسٹوں پر مقامی آبادی کو بے جا تنگ کیا جاتا ہے۔ سمندر اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت ٹرالر مافیا کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے مقامی مچھیرے بھوک افلاس بے روزگاری کا شکار ہوچکے ہیں۔ گوادر کے اصل مالک گوادر کے ماہی گیر اور یہاں کے باسی ہیں کوئی اور گوادر کی ملکیت کا دعویٰ نہ کرے۔ کوئی بھی گوادر کے مکینوں کو لاوارث نہ سمجھے، ہم سیاسی مزاحمت جاری رکھیں گے۔ حکومت پاکستان فوری طور پر ہمارے بنیادی حقوق فراہم کرے اور غیر ضروری تمام چیک پوسٹوں کو ایک ماہ کے اندر ختم کیا جائے۔ لاپتا افراد کو بازیاب کیا جائے۔ 30اکتوبر تک ہمارے مطالبات نہیں مانے گئے تو31اکتوبر کو پریس کانفرس کر کے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے اور نومبر کے مہینے میں بلوچستان کی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر سوشل میڈیا اور میڈیا پر ترقی کی رٹ لگانے والوں نے یہاں کی آبادی کو پینے کے پانی، بجلی اور علاج معالجے سے محروم کر رکھا ہے۔ گودار کے عوام ایسی ترقی پر لعنت بھیجتے ہیں اس نام ونہاد ترقی اور خوشحالی کے خوبصورت نعروں کے پیچھے یہاں کے لوگ بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
بلاشبہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی باتوں نے ہر ذی شعور پاکستانی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بلوچستان میں بھارت اور را کے بڑھتے ہوئے قدم کے پیش نظر سیکورٹی کے اداروں نے حفاظتی انتظامات کیے ہوں گے جس کے باعث مقامی آبادی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوگا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری طور پر گوادر کے عوام کو مطمئن کریں۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے ہمیں گوادر کی مقامی آبادی کی بڑھتی ہوئی شکایات کو سننا ہوگا اور ان کے تحفظات کو دور کرنا ہوگا۔ مچھلی کے ٹرالوں کی آمد سے گوادر کے مچھیرے بے روزگار ہوگئے ان کا واحد روزگار مچھلی کا شکار ہی تھا حکومت اس سلسلے میں کوئی راستہ نکالے اور کھلے سمندر میں گودار کے مچھیروں کو شکار کی اجازت دی جائے۔ جبری گمشدگیوں کا معاملہ تشویش ناک صورتحال اختیار کر چکا ہے اور اس سے نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ قانوں نافذ کرنے والے ادارے جرائم پیشہ عناصر اور عام شریف آدمی میں فرق کریں اور فوری طور پر گمشدہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔ گودار میں پینے کے صاف پانی، تعلیم اور علاج معالجے کا بہترین بندوبست کیا جائے اور مقامی آبادی کے ساتھ مل کر ان کے تمام تحفظات دور کیے جائیں۔ گوادر بندرگاہ کی ملازمتوں میں گوادر کی مقامی آبادی کے افراد کو ترجیح دی جائے اور یہاں سی فوڈ انڈسٹریاں قائم کی جائیں تاکہ یہاں کی مقامی آبادی کے لیے روزگار کے دروازے بھی کھلیں۔
گوادر کی ترقی ملک کی ترقی اور خوشحالی ہے لیکن گودار کی مقامی آبادی اگر اس ترقی، خوشحالی، حکومت کی نااہلی اور غیر ذمے داری کی وجہ سے پریشان اور مشکلات کا شکار ہے تو یہ انتہائی قابل افسوس بات ہے۔
حکومت 30اکتوبر سے قبل مولانا ہدایت الرحمن بلوچ اور ان کے ساتھیوں سے رابطہ کرکے ان کے تمام مطالبات تسلیم کرے اور ان کے تمام خدشات اور شکایات کو دور کیا جائے۔ گوادر کے عوام سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی بلوچستان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور اپنے دوست دشمن کی پہچان کریں۔ گوادر کی ترقی اور خوشحالی سے بین الاقوامی قوتیں خاص طور پر بھارت، اسرائیل بہت پریشان ہیں وہ یہاں کی آبادی کو پاکستان سے بدظن کر کے مشرقی پاکستان والا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں لیکن ان ملک دشمنوں اور ان کے آلہ کاروں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ 2021 ہے اور ڈھاکا بھی نہیں ہے۔ ان شاء اللہ گوادر کے تمام بنیادی مسائل جلد حل ہوں گے اور گودار بھی جلد ایک بین الاقوامی ترقی یافتہ شہر بن کر ابھرے گا۔ گوادر کو اس کا حق ضرور ملے گا۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان اور گودار کی ترقی اور خوشحالی کے لیے آواز اٹھائی ہے ان کی تحریک کامیاب ہوگی اور مرجھائے ہوئے چہروں پر جلد خوشی اور مسرت نظر آئے گی اور ملک دشمن قوتوں کی ہر سازش ناکام ہوگی۔