کراچی (رپورٹ /محمد علی فاروق) معاشرے میں علم و تقویٰ کے بجائے طاقت و سرمایہ کا غلبہ مسلمانوں کے اندر ایمانی قوت یعنی تقویٰ کی کمی، دین سے دوری ، قرآنی تعلیمات کے فہم و تدبر کا فقدان اور خود غرضی ہے، مسلمان عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا بلکہ طاقت کے زور پر مسلمان عوام کو محکوم بنا یا گیا ہے اور بنایا جارہا ہے،طاقت اور سرمایہ بھی اللہ کی اہم نعمتیں ہیںجب یہ نعمت انسان کو اللہ سے دور کر دے تو انسانی معاشرہ تباہ وبرباد ہوجاتا ہے ،اللہ سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت کا) علم رکھتے ہیں جب معاشرے میں طاقت اور سرمایہ ،تقویٰ اور علمی بصیرت کے ساتھ پیدا ہوگا تو یقینا اس معاشرے میں اسلام غالب ہوگا ،ہم نے تو مغربی تہذیبی کو رب تسلیم کر لیا ہے۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان سیکرٹری جنرل ویمن ونگ دردانہ صدیقی،فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولاناعطا اللہ عبدالرؤف اورجامعہ کراچی کی پروفیسر ڈاکٹر جہاں آراء لطفی نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا ۔ جماعت اسلامی پاکستان سیکرٹری جنرل ویمن ونگ دردانہ صدیقی نے کہا کہ ایک مسلم معاشرے کے لیے دنیا میں کامیابی اور ترقی کا زینہ علم اور تقویٰ کا مرہون منت ہے۔ آخرت میں فلاح کا راز بھی ایمان تقویٰ اور عمل صالح پر ہے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ علم اور تقویٰ سے بڑھ کر طاقت اور سرمایہ نے ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ جہاں تک طاقت کے استعمال کا معاملہ ہے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس یعنی( might is right) کا قانون انسانی معاشرے کا نہیں بلکہ جنگل کا قانون ہے اور اس قانون نے آج ہمارے معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جب کہ علم اور تقویٰ کا زوال اور طاقت و سرمایہ کی پذیرائی اٹھارہویں صدی عیسوی میں مغرب میں صنعتی انقلاب کے ساتھ شروع ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ مسلمانوں میں ایمان کی کمزوری کے باعث طاقت و سرمایہ کا غلبہ ہونے لگا اور یہیں سے سرمایہ دارانہ نظام نے جنم لیا اور تمام اسلامی ممالک اس کے زیر اثر آگئے۔ دردانہ صدیقی نے کہا کہ ایمان، علم اور تقویٰ کی کمی کے باعث مسلمان اور تمام اسلامی ممالک سیاسی، معاشی، معاشرتی اور فوجی قوت کے لحاظ سے پسماندہ ہو کر رہ گئے ہیں اور مغربی اقوام نے علم کے ورثہ پر تسلط جما لیا ہے اسی لیے تمام تر جدید ٹیکنالوجی اور علم اب مغرب سے ہمارے ہاں امپورٹ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ تین صدیوں سے مسلمان اقوام تنزلی اور زوال کا شکار ہیں۔ معاشرے میں علم و تقویٰ کے بجائے طاقت و سرمایہ کا غلبہ مسلمانوں کے اندر ایمانی قوت یعنی تقویٰ کی کمی ، دین سے دوری ، قرآنی تعلیمات کے فہم و تدبر کا فقدان اور خود غرضی ہے۔عصری اور دینی علوم سے دوری کی وجہ سے آج مسلمانوں میں علم و تحقیق کا فقدان ہے جو کہ کبھی ان کا خاصہ تھا۔ دوسری بڑی وجہ اللہ کی نعمتوں کی ناقدری اور مادیت پرستی ہے۔دردانہ صدیقی نے کہا کہ مغربی اقوام اور تہذیب سے مرعوبیت بھی اس کی ایک اہم اور بڑی وجہ ہے۔ آج ہمارا معاشرہ مغرب کی ظاہری خوشحالی سے متاثر ہو کر کر اس کے تاریک تر باطن کو اپنا رہا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لباس،رہن سہن، انداز و اطوار اور زبان میں ہم اہل مغرب کے احسان مند ہیں۔ہم مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید کرتے کرتے اپنی آخرت کی زندگی کو فراموش کر چکے ہیں اور محض جسمانی عیش و عشرت کو روحانی سکون پر ترجیح دینے لگے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے اندر پریشان حالی،نفسا نفسی، خود غرضی اور نمائش جیسی بیماریاں جنم لے چکی ہیں جو بحیثیت قوم ہمیں لمحہ بہ لمحہ زوال کی طرف لے جا رہی ہیں۔مال و دولت کا حصول اور مادہ پرستی دو الگ الگ چیزیں ہیں ،ہم نے مغرب کو مکمل تہذیبی رب تسلیم کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم اقوام کی علمی، معاشی اور فوجی برتری نے ہمیں مرعوبیت کے جال میں جکڑ رکھا ہے۔مسلم حکمرانوں کی ذہنی غلامی اس پر مستزاد ہے۔ہمارے معاشی نظام پر سودی نظام کا شکنجہ ، عدالتی نظام میں انصاف کی فراہمی میں ناکامی اور بے جا کوتاہی اور معاشرے میں افراط و تفریط کی فروانی ہیں۔فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولاناعطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ بالخصوص یہ مسئلہ مسلم معاشرے کو درپیش ہے اس کی بنیا دی وجہ ایمان کی کمزوری ہے ، مسلمان کے لیے اسلامی بنیادی عقائد پر ایمان رکھنا لازم ہے اس حوالے سے ہم شعور ی طورپر بہت کمزور ہیں ، مولانا مودودیؒ اس پر زور دیا کرتے تھے کہ ایک مسلمان کو شعوری طور پر مسلمان ہونا چاہیے ، اسلام کو سمجھنا چاہیے اور بنیادی عقیدے پر عمل کرنا چاہیے اپنے قول وفعل سے تضاد کو دور کرنا چاہیے ،تقوی اور علم کے بجائے طاقت اور سرمائے کا اہم ہونا دراصل ایمان کی بنیادی کمزوری اور اساسی وجہ ہے ،لیکن ایمان کی کمزوری کی اصل وجہ حب عاجلہ دنیا پرستی ہے اس کے ساتھ انتہائی بڑی وجہ ہمارے معاشرے کا حکمران طبقہ ، قائد ، رہنما، سیاستدان اور وہ افراد جو قوم کی قیادت کے منصب پر فائز ہیں وہ علم سے آری نظر آتے ہیں ، مولاناعطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ آج سے چند سال قبل تک ذی فہم ، باشعور ، اہل علم افراد کے ہاتھوں قیادت اور سیاست ہوا کرتی تھی جیسے مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا حسین احمد مدنی ، بہادر یار جنگ ، سردار عبدالرب نشتر ،،محمد علی جناح ، علامہ اقبال اور بے شمار اکا برین وہ سب اعلی ٰ تعلیم یافتہ سلجھے ہوئے باشعور افراد تھے ، لیکن پھر آہستہ آہستہ ہمارا معاشرتی بگاڑ شروع ہوا تو سیاست میں علم کے بجائے پیسہ آگیااور سیاست کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ، جس کے نتیجے میں اہل علم باشعور طبقہ پس منظر سے غائب ہوگیااور دنیا وی مفاد پرست ، اخلاقی گراوٹ کا شکار طبقے کے ہاتھوں میں معاشرے کی قیادت آگئی ، نتیجتاً تقویٰ اور علم کے بجائے طاقت اور سرمایہ لوگوں کی نظر میں اہم ہوگیا، ظاہر ہے جب سیاست ، عہدے ، منصب ، زمام کار نااہل اور سرمایہ دار کے ہاتھوں میں چلے جائیں تو پھر معاشرے میں سرمایہ ہی اہم سمجھا جانے لگتا ہے۔ مولاناعطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ دوسری جانب پوری امت مسلمہ کے معروضی حالات کو دیکھ لیں یہاںمسلمان عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا بلکہ طاقت کے زور پر مسلمان عوام کو محکوم بنا یا گیا ہے اور بنایا جارہا ہے یہی دو بنیادی فیصلہ کن عوامل ہیں جس کی بنیا د پر ہم کہ سکتے ہیں کہ طاقت اور سر مایہ اس لیے اہم ہوکر رہ گیا ہے ،امت مسلمہ اس وقت جس راستے پر چل رہی ہے یہ تنزلی ، پستی کی جانب گامزن ہے ،امت مسلمہ کو اپنے اسلاف کی جانب پلٹنا ہوگا، تقویٰ ، اور علم کو معیار بنا نا ہوگا، اللہ تعالی کی نظر میں وہی معزز ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہے اور اللہ تعالی ہمیں حکم دیتا ہے کہ ذمے داریاں مناصب ، امانتیںانہیںدو جو اس کے اہل ہیں اگر معاشرہ یہ ذمہ داریاں اہل افراد کو سونپتا ہے تو پھر اس کے نتیجے میں معاشرے کا یہ بگاڑ بھی اللہ کے فضل وکرم سے ختم ہوجا ئے گا ۔ اللہ تعالی ہم سب کی رہنمائی فرمائے اور ان مسائل سے نکلنے کا راستہ سمجھائے۔ جامعہ کراچی کی پروفیسر ڈاکٹر جہاں آراء لطفی نے کہ طاقت اور سرمایہ بھی اللہ کی بہت ہی شاندار نعمتوں میں سے اہم نعمتیں ہیںلیکن جب کوئی بھی نعمت انسان کو اللہ سے دور کر دے تو وہ انسانی معاشروں کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔انسان اور معاشرتی ماحول دونوں اپنا چین کھو دیتے ہیں۔اسی طرح جب انسان اللہ سے ڈرنا چھوڑ دیتا ہے تو طاقت اور سرمایے پر تکبر کرتا ہے ،قرآن مجید میں بار بار واتقوا اللہ کہہ کر یہی بات باور کرائی گئی ہے کہ تم مجھ ہی سے ڈرواور کہا گیا کہ لوگوں کے لیے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے،یہ سب کچھ انسان کے لیے ہے ، اللہ سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت کا) علم رکھتے ہیں، اللہ سے خوف کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ طاقت اور سرمایے کو اس طرح استعما ل کیا جائے جیسا اللہ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ہے علم حاصل کرنا ہر خواتین اور مرد پر فرض کیا گیا ہے انسان طاقت اور سرمائے کے بل بوتے پر دنیا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺبتائے ہوئے راستے پر چل سکے، دنیا میںاسلام کا غلبہ اس وقت ہی ممکن ہے جب انسان میں تقویٰ کے ساتھ علمی بصیرت بھی پیدا ہو بس یہی بات سمجھنے کی ہے۔