ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا ہے،عدالت عظمیٰ

150

اسلام آباد (آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے پولیس کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو جو کام سونپا گیا ہے وہ نہیں کرتی، کچھ اور کرنے لگ گئے ہیں، کس قدر ناانصافی کا کاروبار چلا رکھا ہے، ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، جو ملزم ہمارے پاس آتا ہے بری ہو جاتا ہے کیونکہ تفتیش ٹھیک نہیں ہوئی ہوتی۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں مقیم ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگی سے متعلق کیسز کی سماعت کی۔دورانِ سماعت کوئٹہ سے جبری طور پر گمشدہ شہری علی رضا کی اہلیہ نے عدالت میں پیش ہوکر کہا کہ میرے شوہر 2013 سے لاپتا ہیں، جس آدمی پر اغوا کا شک تھا پولیس نے اس کو رہا کردیا۔ چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) بلوچستان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟ جرم کے بعد تفتیش کا دورانیہ محدود ہوتا ہے، 7 سال سے ایک شخص لاپتا ہے پولیس نے کچھ کیا ہی نہیں۔آئی جی بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ سال 2013 کے بعد3 سال تک کیس لیویز کے پاس رہا، لیویز پولیس کا ادارہ نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ 3 سال تک لیویز کے پاس رہا آپ کے پاس آیا تو کیا کرلیا آپ نے؟ پولیس کی تفتیش میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے، بھائی آپ کو معلوم بھی ہے تفتیش کس چڑیا کا نام ہے؟۔آئی جی بلوچستان نے کہا کہ ہم بندہ بازیاب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اب تک خاک کوشش کی ہے، ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے پولیس کا نہیں، وردی کس لیے پہنائی ہے آپ کو؟ آپ کو کسی کا احساس ہی نہیں۔ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ اگر علی رضا کے اہل خانہ ہم سے تعاون کریں تو تفتیش مکمل کر لیں گے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کو آپ پر اعتبار آئے گا تو یہ تعاون کریں گے، جرم کے شواہد 24 گھنٹے میں غائب ہو جاتے ہیں، پولیس انتظار کرتی رہتی ہے کوئی ان کا چائے پانی کرے تو یہ کارروائی کریں، آپ اس وردی کا لحاظ نہیں کرتے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ پولیس کو جو کام سونپا گیا ہے وہ نہیں کرتے کچھ اور کرنے لگ گئے ہیں، کس قدر ناانصافی کا کاروبار چلا رکھا ہے، ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، جو ملزم ہمارے پاس آتا ہے بری ہو جاتا ہے کیونکہ تفتیش ٹھیک نہیں ہوئی ہوتی۔بعدازاں سپریم کورٹ نے 8 سال سے لاپتا علی رضا کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شہری کے اغوا میں ملوث کرداروں کو سامنے لایا جائے، علی رضا کی بازیابی میں کسی سیکورٹی ایجنسی کی لاپروائی برداشت نہیں کی جائے گی۔ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 4 لاپتا افراد کی بازیابی پر ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے اور بازیاب ہونے والے چاروں افراد عدالت میں موجود ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے بازیاب شہری سے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے اغوا کیا تھا؟ جس پر شہری نے کہا کہ اغوا کاروں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے شناخت نہیں کر سکتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بازیاب شہری خود اپنے گھر واپس آئے، پولیس نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی، بازیاب شہری خوف کی وجہ سے اغوا کاروں کے نام نہیں بتا رہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بازیاب شہری کہتے ہیں پولیس کو اغوا کاروں کے نام بتا دیے تو ایک بار زندہ واپس آگئے دوبارہ نہیں آسکیں گے، بازیاب شہریوں کو ریاستی مشینری پر بھروسہ ہی نہیں۔عدالت نے حکم دیا کہ ہزارہ برادری کے بازیاب 4 افراد کے اغوا میں ملوث کرداروں کو پکڑا جائے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سخت ایکشن لیا جائے۔عدالت نے مزید حکم دیا کہ بلوچستان حکومت شر پسند عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے، زبان زد عام ہے کہ بلوچستان میں قانون کو توڑنے والے عناصر موجود ہیں، بلوچستان اور کوئٹہ شہر میں ہر برادری کو تحفظ یقینی بنایا جائے، بعدازاں کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔