ریاست یا ادارے یا کسی شخص نے جو قطعۂ زمین کسی خاص غرض کے لیے عطیہ کیا یا وقف کیا ہو، مثلاً مسجد اور دینی جامعہ کے لیے، تو اسے کسی بھی دوسری غرض اور دْنیوی تعلیم کے لیے استعمال کرنا امانت میں خیانت ہے۔
نبیؐ نے فرمایا: چار خصلتیں جس آدمی میں ہوں وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان چاروں خصلتوں میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی: 1۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے 2۔جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے 3۔جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، اور 3۔جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ (بخاری) بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق ریاست نے جو قطعۂ زمین دیا، وہ مسجد اور دینی جامعہ کے لیے دیا۔ اس لیے وہ مسجد اور دینی جامعہ کی امانت ہے۔ اسے کسی دوسرے ادارے کو دینا یا کسی دوسرے ادارے کو کرایے پر دینا، امانت میں خیانت ہے۔ جب یہ پلاٹ لیا تھا، تب معاہدہ کیا گیا تھا کہ اس پر مسجد اور دینی جامعہ تعمیر کی جائے گی، تو اس لحاظ سے یہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جس نے زمین کا کچھ بھی حصہ ناحق لیا ہو، اسے قیامت کے روز سات زمینوں میں دھنسایا جائے گا‘‘۔ (بخاری) ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول کریمؐ ہمارے درمیان خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو مالِ غنیمت اور سرکاری خزانے میں خیانت کو بہت بڑا جرم قرار دیا اور فرمایا: ’’اْس کا نتیجہ بھی بہت سخت ہوگا‘‘۔ پھر فرمایا: ’’میں نہ پائوں کہ تم میں سے کسی ایک کو کہ وہ میرے پاس قیامت کے روز اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور وہ منمنا رہی ہو۔ وہ کہے: یارسول اللہ! میری مدد کیجیے، تو میں کہوں گا: میں تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو، اور وہ ہنہنا رہا ہو، تو میرے پاس آئے اور کہے: یارسول اللہ! میری فریاد رسی فرمائیے، تو میں کہوں گا: میں تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر سونا چاندی کا بوجھ ہو اور وہ کہے: یارسول اللہ! میری مدد فرمائیے، تو میں کہوں گا: آج میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر اْونٹ بڑبڑا رہا ہو اور وہ کہے یارسول اللہ! میری مدد فرمایئے، تو میں کہوں گا: میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ اس کی گردن پر کیڑا حرکت کر رہا ہوگا، وہ بوجھ بنا ہوا ہوگا اور تذلیل کر رہا ہوگا، تو میں کہوں گا: آج میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (بخاری) عبداللہ بن عَمروؓ سے روایت ہے، نبیؐ کے سامان پر ایک آدمی کی ڈیوٹی تھی۔ اسے ’کرکر‘ کہا جاتا تھا۔ وہ فوت ہوگیا تو نبیؐ نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ کیا وجہ ہے تو پتا چلا کہ اس کے سامان میں ایک چادر ہے جو اس نے خیبر کے دن مالِ غنیمت سے چوری کی تھی۔ (بخاری، باب القلیل من الغلول) اسی طرح ایک موقع پر آپؐ نے اعلان فرمایا کہ: ’’جس نے مالِ غنیمت میں سے کوئی چیز چوری کی ہوگی تو وہ چیز اس کے لیے آگ ہوگی۔ پھر کوئی جوتے کا ایک تسمہ لے آیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کا ایک تسمہ ہے‘‘۔ کوئی دو تسمے لے آیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کے دو تسمے ہیں‘‘۔ (بخاری) امانت میں خیانت کا اسلامی حکم تو مذکورہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں سامنے آگیا۔ اسی طرح اخلاقی لحاظ سے دنیا بھر میں خیانت کاری کو بڑا قابلِ نفرت جرم قرار دیا جاتا ہے۔ عدالتیں خائنوں کو قیادت کے مناصب کی اہلیت سے نااہل قرار دیتی ہیں، حتیٰ کہ وہ لوگ قومی، صوبائی اور سینیٹ کی رکنیت تک کے لیے اہل نہیں رہتے۔ قانونی لحاظ سے آئین پاکستان کی دفعہ 62 اور دفعہ 63 میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی ادارے خصوصاً قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لیے صرف ایسا شخص اہلیت رکھتا ہے، جو صادق اور امین ہو۔
مسجد اور مدرسے کے لیے دیے گئے قطعۂ اراضی کو، کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا: اسلامی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کھلی خیانت ہے۔
اس سلسلے میں جو بھی معاہدہ، انجمن کے نمایندوں نے کسی بھی ساہوکار کے ساتھ کیا ہوگا، وہ کالعدم قرار پائے گا، جسے کوئی قانونی اور اخلاقی تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے اسے عدالت میں چیلنج کرکے ختم کرایا جانا چاہیے۔
٭مسجد کے لیے ایک زمین کا اعلان ہوجائے تو اس زمین کو نیلام نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ جس نے ایسا اعلان کیا ہو، اسے اگر کوئی غیرمعمولی صورتِ حال درپیش ہو کہ وہ اس اعلان کو واپس لے رہا ہے، تو اسے اس کے بدلے میں اس قدر وقیمت کی دوسری موزوں اور مناسب جگہ وقف کرنا ہوگی۔ یہاں پر یہ بات بالوضاحت کہنا ضروری ہے کہ یہ ’غیرمعمولی صورتِ حال‘ واقعی اْمت کے کسی بڑے اجتماعی مفاد سے وابستہ ہونی چاہیے اور اس صورتِ حال کی نزاکت کا تعین علمِ دین سے متصف افراد اور احترام کے اعلیٰ درجے پر فائز مقتدر ادارہ، آخرت کی جواب دہی کے احساس کے تحت کرے تو اس کا کوئی وزن ہوسکتا ہے، وگرنہ ’منڈی کی معیشت‘ کے تابع کیا جانے والا ایسا فیصلہ شریعت کی نظر میں قطعاً ناقابلِ قبول ہوگا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایسی رعایت اور مداہنت کا دروازہ کھولنے کا مطلب اوقاف و عطایا کے پورے نظام کے تقدس اور نزاکت کو ملیا میٹ کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے، جس سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ایمان کا تقاضا ہے۔
٭ایسے لوگ جو مسجد اور مدرسے کی زمین کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کریں، آگے بڑھ کر انھیں روکنا ضروری ہے۔ اگر وہ، لوگوں کی بات نہیں سنتے اور اپنے فیصلے سے باز نہیں آتے، تو بذریعہ عدالت انھیں اس سے روکنا ہوگا۔ واللہ اعلم!