نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو دنیا سے رخصت ہوئے42سال بیت گئے ہیں ، مگر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کل کی بات ہو ۔ دنیا میں ہر انسان عارضی وقت کے لیے آتاہے ۔ یہ دنیا راہ گزر ہے ، جائے قرار نہیں ہے ۔ یہاں ہر لمحہ کوچ کا نقارہ بجتاہے، یہاں کسی متنفس کے لیے کوئی قیام نہیں ۔ یہ مسافر خانہ ہے اور یہاں سے بے شمار مسافران عدم گزرے ، گزر رہے ہیں اور گزرتے رہیں گے ۔
سید مودودیؒ کی شخصیت ہر لحاظ سے جامعیت کے ہر معیار پر پوری اترتی ہے ۔ علم و حلم اور فکر و عمل، ہر میدان میں انہوں نے اپنا لوہا منوایا اور سکہ جمایا ۔ ان کی زندگی کے تمام پہلو اس قابل ہیں کہ ہر ایک پر ایک مستقل کتاب تصنیف کی جائے اور دور جدید میں طلبہ و طالبات ان پر جومتنوع مقالہ جات لکھ رہے ہیں وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں ۔ مولانا نے بہت چھوٹی عمر میں ایک ایسی معرکہ آرا کتاب لکھی جس کو آج بھی اہل علم و اصحاب نظر اس موضوع پر بہترین دستاویز قرار دیتے ہیں ۔ آج کے دور میں جہاد دنیا کی بحث و نظر کا مرکزی نقطہ ہے ۔ اسے کس رنگ میں پیش کیا جاتا ہے، اس کا حلیہ بگاڑنے اور اس کا روشن چہرہ مسخ کرنے کی کس قدر جسارت کی گئی ہے ، اس سے ہر مسلم و غیر مسلم بخوبی واقف ہے ۔ جہاد فی الحقیقت ہے کیا ، اس سوال کا جواب اگر کوئی متلاشی ٔ حق معلوم کرنا چاہے تو سید مودودی ؒ کے عنفوان شباب میں لکھی گئی ان کی کتاب ’’ الجہاد فی الاسلام ‘‘ اس کا شافی جوا ب دیتی ہے ۔
ان کا وسیع ومتنوع لٹریچر ہر موضوع اور انسانی زندگی میں انفرادی و اجتماعی دائروں میں پیش آنے والے جملہ مسائل کا احاطہ کرتاہے اور محض فکری و نظری نہیں، قابل عمل حل پیش کرتاہے ۔ قرآن جو الہامی کتابوں میں سے سب سے آخری پیغام ہے اور جو دنیا میں واحد کتاب ربانی ہے جس میں کسی بھی نوعیت کا ردوبدل ، ترمیم و اضافہ اور حکّ و تحریف نہیں ہوئی ، انسانیت کے لیے واحد اور حقیقی دستور حیات ہے ۔ اس دستور حیات کی تشریح جس دل نشین ، عام فہم مگر علمی وقار و معیار کو ملحوظ رکھ کر سید مودودی ؒ نے کی ہے وہ بھی لاجواب ہے اور اہل علم کے لیے انمول اور بے بہا خزینہ ہے ۔’’ تفہیم القرآن ‘‘کو اللہ نے جو مقبولیت عطا فرمائی ہے وہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے ۔ قرآنی تفاسیر کے درمیان تفہیم کا مقام اہل علم و نظر کے نزدیک بہت بلند ہے ۔ان کی علمی و محققانہ تصانیف میں سے جملہ احادیث ِ رسول ؐ کو جمع اور مدون کر کے آٹھ ضخیم جلدوں میں جو کتاب ’’ تفہیم الاحادیث ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے ، علم حدیث کے طلبہ و اساتذہ کے لیے بے مثال راہ نمائی کاذریعہ ہے ۔
سید مودودی ؒ کا کمال یہ ہے کہ وہ محض کتابی دنیا ہی کے شاہ سوار نہیں بلکہ سیاسی میدان میں بھی انہوں نے ناقابل فراموش کارنامے سرانجام دیئے ہیں ۔ قیام پاکستان سے قبل جدوجہد آزادی میں مولانا مودودی نے بلاشبہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی ، نہ مسلم لیگ کے طریق کار سے انہیں اتفاق تھا ، مگر دو قومی نظریہ جسے قیام پاکستان کی بنیادکا درجہ حاصل ہے علمی و فکری اور استدلال کی دنیا میں مولانا مودودی کی پر زور اور موثر تحریروں ہی سے اجاگر ہوا ۔ مولانا کی کتاب ’’ آزادی ہند اور مسلمان ‘‘ اس کا واضح ثبوت ہے ۔ یہ ان مضامین پر مشتمل ہے جو مولانا نے تحریک آزادی کے دوران ماہنامہ ’’ ترجمان القرآن ‘‘ میں بالاقساط ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘ کے عنوان سے مسلسل کئی سال تک لکھے اور جن میں سے بعض مضامین کتابچوں کی صورت میں مسلم لیگ کے پبلسٹی سیل نے اس دور میں افادہ ٔ عام کے لیے چھاپے اور تقسیم کیے تھے ۔ کتاب کے ان حصوں کو پڑھتے ہوئے آج بھی قاری بخوبی اندازہ لگا سکتاہے کہ ان میں دو قومی نظریے کو ثابت کرنے کے لیے کس قدر مضبوط استدلال اور اثر انگیزی پائی جاتی ہے ۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد مطالبہ دستور اسلامی مولانا کا ایک اور عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی قدر و قیمت پاکستان کا ہر وہ طالبعلم بخوبی جانتاہے جو اس کی دستوری تاریخ سے واقف ہے ۔ اسی عرصے میں مولانا کی پہلی گرفتاری بھی عمل میں آئی ، جو سیاسی زندگی کا حصہ ہے ۔ مولانا کو قائد اعظم ؒ کی وفات کے بعد سے لے کر دور ایوبی تک ہر حکومت نے جیل یاترا کرائی ۔ اسی عرصے میں انہیں پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی ۔
آج ہم پوری دنیا میں بالخصوص عالم اسلام میں آمریت ، ظلم و جبریت اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کاجو منظر دیکھتے ہیں اس سے بعض لوگوں کو خوف آنے لگتاہے مگر مولانا شدید ترین ابتلا سے گزرے اور کمال عزم و استقامت اور خندہ پیشانی سے ہر منزل سر کرتے چلے گئے ۔ مولانا کا یہ بھی کمال ہے کہ اسی جدوجہد کے دوران انہوں نے سول لبرٹیز کے نام سے ایک تنظیم قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس اتحاد میں ہر ذہن اور خیال کے لوگ حتیٰ کہ کیمونسٹ اور غیر مسلم بھی شامل تھے ۔ آنجہانی پروفیسر ایرک سپرین عیسائی اور بائیں بازو کے اہم فکری ستون تھے ۔ اس تنظیم میں وہ بھی شامل رہے ۔پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے والد محمود علی قصوری مرحوم بھی اس تنظیم کے اہم رکن تھے۔ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ایک نہایت اہم اور نوبل فریضہ ہے ۔ مختلف الخیال عناصر کو اس پلیٹ فارم پر جمع کرنا جہا ں مولانا کی دور اندیشی اور وسیع القلبی کا بین ثبوت ہے وہیں سیاسی و جمہوری اقدار کو ان کے صحیح تناظر میں پرکھنے اور اس میدان میں جدوجہد کی مسدود راہوں کو کھولنے کے لیے عملی نقطہ ٔ نگاہ پروان چڑھانے کی دلیل بھی ہے ۔
مولانا مودودی نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کیا کہ سیاسی جدوجہد میں جلد بازی ، گھبراہٹ ، بزدلی اور اشتعال انگیزی میںآ کر کوئی اقدام سلامتی کا راستہ نہیں ہے ۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کو دہشت گرد قرار دینے کی باتیں احمقانہ اور حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہیں ۔ جماعت آج بھی اپنے اس راستے پر پورے اطمینان کے ساتھ گامزن ہے ۔ ہم نہ انتہا پسند ہیں نہ خفیہ طریقوں سے کوئی کاروائی جائز سمجھتے ہیں ۔ہم پرویز مشرف کی حکومت کو غیر دستوری ، غیر اخلاقی اور غاصب سمجھتے ہیں ۔ ہم اس کے خلاف قانونی ، عدالتی ، سیاسی اور جمہوری جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔
حکمران جب بدنیت ہو جاتے ہیں تو ’’ خوئے بد ر ا بہانہ ہائے بسیار ‘‘ کے مترادف اندھی قوت استعمال کر کے اپنے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے پر تل جاتے ہیں ۔ پاکستان میں حکمرانوں نے ہمیشہ یہی راستہ اپنایاہے ۔ صدر محمد ایوب خان نے مولانا مودوی کو ایک بار پھر گرفتار کرنے کے لیے رویت ہلال اور عید منانے نہ منانے کے مسئلے کو جواز بنا لیا ۔ مولانا کا مشرقی پاکستان ، لیبیا ، سعودی عرب اور بعض دیگر مسلم ممالک کا دورہ طے تھاکہ 29 جنوری 1967 ء کو صبح سویرے انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ الزام یہ تھاکہ انہوں نے حکومت کے اعلان کردہ فیصلے پر عید منانے سے انکار کیا ہے ۔ مولانا کے علاوہ کئی اور علما بھی گرفتار ہوئے ۔ صدر ایوب نے اس توہم کے تحت کہ جمعہ کے دن عید منائی جائے تو ایک دن میں دو خطبے (خطبہ جمعہ اور خطبہ عید) حکمرانوں کے زوال کا سبب بنتے ہیں ، طلوع ہلال کے بغیر جمعرات کو عید الفطر منانے کا اعلان کر دیا ۔علما نے یہ سرکاری اعلان مسترد کر دیا اور اسلامی اصول کے مطابق قرار دیا کہ چاند نظر آئے بنا29 روزوں کے بعد عید منانا جائز نہیں۔ یہ گرفتاری بھی دراصل سیاسی انتقام کے زمرے ہی میں آتی ہے ۔ مولانا کو اس ناکردہ جرم کی پاداش میں بنوں کے ایک بنگلہ میں ڈھائی ماہ نظر بند رکھا گیا ۔ حکومت کے اس شر میں سے یہ خیر برآمد ہوا کہ سید مودودی نے تفہیم القرآن جلد سوم پر نظر ثانی کا کام پورے اطمینان کے ساتھ اس عرصے میں مکمل کر لیا جو مسلسل مصروفیات اور دوروں کی وجہ سے کافی عرصے سے ملتوی ہوتا چلا آرہا تھا
علما کی گرفتاریوں کے خلاف عدالت میں رٹ چل رہی تھی کہ حکومت کو اپنے کمزور موقف کا احساس ہو گیا ۔ حکومت کو یقین تھاکہ عدالت اس ظالمانہ نظر بندی کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دے دے گی ۔ عدالتیں ذرا بھی جرأت کا مظاہرہ اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر آمادہ ہو ں تو حکومتیں پسپا ہو جاتی ہیں ۔ موجودہ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے عدلیہ کا وقار بحال کر دیاہے ۔ اس کا سہرا بار اور بنچ دونوں کے سر ہے ۔ دور ایوبی میں اور اس کے بعد بھی عدالتیں خود ہی اپنی ساکھ تباہ کر تی رہی ہیں ۔ ایوبی دور پرویزی دورسے بھی زیادہ خطرناک تھا۔ اچانک 15 مارچ 1967 ء کی دوپہر کو مولانا مودودی کو ایک پولیس گاڑی میں بٹھا کر بنوں سے روانہ کر دیا گیا ۔ شدید بارش اور سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے یہ گاڑی 16 مارچ کو صبح آٹھ بجے لاہور پہنچی ۔ رہائی کی یہ خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر جگہ لوگوں نے حکومت کے خلاف نفرت اور مولانا مودودی کے ساتھ زندہ باد کے نعروں سے ، محبت و عقیدت کا اظہار کیا ۔
مولانا کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ طاغوت سے زندگی بھر پنجہ آزمائی کرتے رہے ۔ اس کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور قانون کی حدود میں رہ کر اپنی جدوجہد کے خدو خال واضح کیے ۔ اس وقت پھر جماعت اسلامی کے خلاف نام نہاد روشن خیال حکمران جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی یو این او کے حوالے سے خبر دی جاتی ہے کہ’’ جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی جائے گی ‘‘کبھی فوجی آمریت دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے جماعت اسلامی کے کارکنان اور قیادت کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ جماعت کی آج بھی سوچی سمجھی پالیسی یہ ہے کہ ہم نہ باطل سے مصالحت کریں گے نہ اس کے سامنے گھٹنے ٹیکیں گے اور نہ ہی اشتعال انگیزی کے جواب میں کوئی غیر قانونی اور غیر آئینی راستہ اختیار کریں گے ۔ ہم حق و صداقت کے علمبردار ہیں ۔ ہمارے پاس مضبوط دلائل موجود ہیں ۔ پھر ہم کیوں غیر قانونی حرکت کریں گے ؟ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ امیر جماعت نے آج بھی جو رٹ عدالت عظمیٰ میں دائر کی ہے ، ہمیں امید ہے کہ اس میں سرخرو ہوں گے ۔