دنیا افغانستان میں اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے خواتین کے مسائل کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہی ہے

5318

کراچی (رپورٹ \محمد علی فاروق) بھارتی ایجنسیاں غلط معلومات اور پروپیگنڈا پھیلا کر عوام کو دھوکے میں ڈال رہی ہیں ،بھارت اس لیے پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ اصل مسئلے پس پشت چلے جائیں، مغرب 40سال کے دوران بیوہ، یتیم ، معذور اور بے روز گا ر ہونے والے افراد کی معاشرے میں بحالی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کر رہا، دراصل امریکا اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے خواتین کے مسائل کے پیچھے چھپنے کی کو شش کر رہا ہے ، کیا ملک چلانے کے لیے مغربی اسٹیٹ ویلفیئر کا جو مادر پدر تصور مغرب کے پاس ہے وہ ہی ایک پیمانہ ضروری ہے ،مخلوط اور آزاد خیال تعلیم کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے ، امریکا مسائل کو اس لیے اجاگر کر کے افغانستان میں افرا تفری کا ماحول پیدا کر نا چاہتا ہے تاکہ بین الاقوامی دنیا کی سوچ طالبان کیخلاف بنا ئی جاسکے اور افغانستان کو تسلیم نہ کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کی جاسکے ۔ ان خیالا ت کا اظہار دفتر خارجہ کے سابق ترجمان اور سفارت کار عبدالباسط، جماعت اسلامی پاکستان خواتین امور خارجہ کی نگراں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئرپرسن پرو فیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا ۔دفتر خارجہ کے سابق ترجمان اور سفارت کار عبدالباسط نے کہا کہ امریکا چاہتا تھا کہ افغانستان میں مختلف مسائل کھڑے کر کے خانہ جنگی کی جائے ،یہ سب کچھ افغانستان کو غیر مستحکم رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ طالبان حکومت عوام کو کچھ سہولیات فراہم نہ کر سکیں ،دراصل پاکستان خطے میں وسطی ایشیا ئی ریاستوں تک رسائی کے لیے سی پی ای سی کے ذریعے مستقبل میںباب ر قم کر ے گا، اب پاکستان کی بلا روک ٹوک وسطی ایشیائی ریاستوں سے با آسانی رسائی ممکن ہے، پاکستان آئندہ آنے والے دنوں میں دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) پروگرام کے تحت ایک طویل مدتی پالیسی اور سرمایہ کاری پر گامزن ہوتے ہوئے خطے کی بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور اقتصادی رفتار کو تیز کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے گا ۔ عبدالباسط نے کہا کہ یہی وجہ ہے امریکا اور بھارت دونوں بی آر آئی اور سی پی ای سی کے خلاف نظر آرہے ہیں ، ہم افغان طالبان حکومت سے یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ راتوں رات سب کچھ ٹھیک کر دیں گے، امریکا سمجھتا ہے کہ میرے بڑے دشمنوں میں چین ، ایران اور پاکستان ہیں، میرے خیال میں افغانستان اور ہمارے خطے میں امریکا اور چین کی دشمنی مزید بڑھے گی،پاکستان اس جنگ کے بعد گزشتہ سالوں کے مقابلے میں سفارتی بنیادوں پر پہلے سے زیادہ مضبوط ہے ، بھارتی ایجنسی غلط معلومات اور پروپیگنڈا پھیلا کر عوام کو دھوکے میں ڈال رہی ہیں ،پاکستانیوںکو اس وقت متحد ہونے کی ضرورت ہے ،پاکستان ان شاء اللہ نفسیاتی طور پر لڑی جانے والی اس جنگ کے لیے بھی تیار ہے ۔ جماعت اسلامی پاکستان خواتین امور خارجہ کی نگراں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ افغانستان جو استعماری قوتوں اور عالمی طاقتوں کا قبرستان بنا ہے ان قوتوں کو اب اس شرم ناک شکست کا سامنا کرنا پڑ ا ہے وہ اس کو قبول کرنے کی بجائے افغانستان میں پر پیگنڈا کر رہے ہیں تاکہ افغانستان کے اصل مسئلے پس پشت چلے جائیں ، افغانستان ایک لمبے عرصے بعد جنگی کیفیت سے بحال ہوا ہے وہاں اس وقت خوراک کی کمی کا مسئلہ ہے خوراک کی بڑی تیزی سے بگڑتی صورت حال پر اقوام متحدہ کے اداروں نے بھی نشاندہی کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے اگر افغانستان کے خوراک کے بحران پر قابو نہ پایا گیا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے ، افغانستان میں عالمی طاقتوں نے 40 سال تک آگ اور خون کی ہولی کھیلی ہے۔ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ ان طاقتوں کو عوام کی خوشحالی اور بنیادی سہولیات فراہم کر نے کے لیے اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔ طالبان حکومت سے درخواست کروںگی کہ اس سے قبل بھی آپ کی حکومت میں بچیوں کی تعلیم کی وجہ سے عالمی سطح پر ایک بڑی مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ ا تھا ،جماعت اسلامی بھی آپ کے اس فعل کا دفاع نہیں کر سکتی تھی ا س لیے کہ دین اور دنیا وی روح سے دونوںطرح علم کی تحصیل مسلمانوںپر فرض ہے اس میں لڑکے اور لڑکی کا کوئی فرق نہیں ہے ، تعلیم حاصل کرنا سب کے لیے یکساں ہے ، طالبان حکومت سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ ورکنگ وومین کے لیے بھی سہولتیں فراہم کریں جس طرح وہ کر بھی رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ فوری طورپر بچیوں کی تعلیم کے حصول کے لیے اساتذہ کو سہولیات فراہم کریں اور اسکولوںکو کھولا جائے۔ جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئر پرسن پرو فیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ مغربی ممالک کا حقوق نسواں پر شور شرابہ ایک پروپیگنڈا ہی نظر آرہا ہے، حکومت کو بنے ایک ماہ کا ہی عرصہ گزرا ہے اتنے کم وقت میں تمام معاملات کو سنبھالنا ایک مشکل امر ہے ،افغانستان میں جس تیزی سے موجودہ صورت حال میں تبدیلی رونما ہوئی ہے ان حالات میں اتناجلدی اس طرح کے مسائل کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا غیر مناسب عمل ہے یہ ایک بڑی عجیب بات ہے کہ امریکا کی افغانستان میں فوج کشی اس لیے تھی کہ خطے میں امن و امان ، دہشت گردی ، منشیات کی روک تھام ممکن بنائی جاسکے ،لیکن امریکی افواج کے آنے کے بعد کٹھ پتلی حکومت میں تو اس طرح کے مسئلے مسائل اور زیادہ بڑھ گئے تھے ، مغرب کو کسی قسم کا کو ئی مسئلہ نظر نہیں آیا تو انہوںنے انسانی حقوق کے نام پر خواتین کے مسائل کو چھیڑ دیا ، مگر مغرب تو کابل کی چند سو خواتین کے بارے میں پریشان ہورہا ہے،پرو فیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ افغانستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والی خواتین ان 40سال کے دوران بیوہ ہوئیں بچیاں یتیم ہوئیں کئی ہزار افراد معذور اور بے روز گا ر ہوئے ،مغرب ان خواتین کی معاشرے میں بحالی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کر رہا ، مغرب اور دیگر بین الاقوامی دنیا کو ان خواتین کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ، افغانستان میں رسم رواج اور مذہبی حوالے سے خواتین کو کبھی بھی برابری کے حقوق نہیں دیے گئے ، سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کی کٹھ پتلی حکومت نے اپنے دورحکومت میں خواتین کے تمام مسائل کو حل کر دیا تھا اور کیا وہ سب آزاد خیال تھیں تمام افغانستان کی خواتین بچیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیںکیا وہ اپنی مرضیٰ کی زندگی گزار رہیں تھیں جبکہ ایسا نہیں ہے ، دراصل امریکا اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے خواتین کے مسائل کے پیچھے چھپنے کی کو شش کر رہا ہے ، کیا ملک چلانے کے لیے مغربی اسٹیٹ ویلفیئر کا جو تصور مغرب کے پاس ہے وہ ہی ایک پیمانہ ضروری ہے ،مخلوط اور آزاد خیال تعلیم کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے ،پرو فیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ مسلمان ممالک میں کبھی بھی مغرب کی طرح مادر پدر آزادی کی گنجائش نہیں دی گئی اور نہ ہی دی جاسکتی ہے ،مغرب کے انسانی حقوق کے معیارات الگ ہیں اور مسلمانوں کے الگ ہیں مغر ب کے معیار پر اگر تھوڑی بہت بھی کمی بیشی ہوجائے تو وہ ملک ان کے معیار پر پورا نہیںاتر تااور نہ ہی اتر سکتا ہے ، میڈیا کو طالبان کے مثبت پہلو پر گفتگو کرنی چاہیے طالبان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ پشتون سے ہٹ کر بھی حکومت میں افراد کو نمائندگی دیں گے۔ جنگ کے دوران بیوہ ، شہید ، زخمی اور یتیم ہونے والے خاندانوں کی معاشرے میں بحالی کے لیے کوشاں ہیں، طالبان نے اپنی پہلی حکومت میں بھی منشیات اور دیگر اہم مسائل پر بڑی تیزی سے قابو پالیا تھا اور امید ہے اب بھی وہ ا ن مسائل پر جلد ازجلد قابو پالیں گے ہمیںطالبان حکومت کو وقت دینا چاہیے۔ اس وقت امریکا مسائل کو اس لیے اجاگر کر کے افغانستان میں افرا تفری کا ماحول پیدا کر نا چاہتا ہے تاکہ بین الاقوامی دنیا کی سوچ کو طالبان کیخلاف بنا یا جاسکے اور راہ ہموار کی جاسکے ، وہ اس قسم کے مسائل کی شر ط رکھ کر افغانستان کو تسلیم نہ کرنے کا جواز پیدا کر رہا ہے ۔