ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ ’’قرآن نے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے لفظ ’کافر‘ استعمال کیا ہے۔ ان میں ’ہندو‘ بھی شامل ہیں۔ اس لفظ میں نفرت اور حقارت کا مفہوم شامل ہے۔ کافروں کے بارے میں قرآن میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان سے دنیا میں جس طرح کا معاملہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور مرنے کے بعد دوسری دنیا میں ان کے ساتھ جیسا معاملہ کیے جانے کی خبر دی گئی ہے، انھیں پڑھ کر مسلمانوں کے دلوں میں ان سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ان سے دْور رہنے اور ہر طرح کا تعلق منقطع رکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لفظ ’کافر‘ کا یہی مفہوم ہے؟ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کے اصل معنٰی چھپانے اور ڈھانکنے کے ہیں۔ عربوں کے کلام میں اس مادے سے جتنے الفاظ آئے ہیں، سب میں یہ معانی کسی نہ کسی شکل میں ضرور پائے جاتے ہیں۔ ماہر لغت ابن درید الازدی نے لکھا ہے: ’’کفر کی اصل ہے کسی چیز کو ڈھانک لینا‘‘۔ (جمہرۃ اللغۃ)
اسی لیے اہلِ عرب لفظ ’کافر‘ کا اطلاق ہر اس چیز پر کرتے ہیں، جو کسی چیز کو ڈھانپ لے۔ مثال کے طور پر ان کے کلام میں درج ذیل چیزوں کے لیے اس لفظ کا استعمال ملتا ہے:
’رات‘ کہ وہ اپنی تاریکی سے تمام چیزوں کو ڈھانپ کر نگاہوں سے پوشیدہ کردیتی ہے۔
سمندر: کہ وہ بڑی سے بڑی چیز کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔
بڑی وادی: کہ اس میں پہنچ کر لوگ دوسروں کی نگاہوں سے چھپ جاتے ہیں۔
دریا: کہ وہ اپنے اندر چھوٹی بڑی چیزوں کو چھپا لیتا ہے۔
گہرا بادل: کہ وہ ستاروں، چاند اور سورج کو چھپا لیتا ہے۔
کسان: کہ وہ زمین میں بیج ڈال کر اسے چھپا دیتا ہے۔
زرَہ: کہ وہ فوجی کے جسم کو چھپا لیتی ہے۔
دْور دراز کا علاقہ جہاں کسی کا گزر نہ ہو: کہ وہاں رہنے والے عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ (القاموس، فیروز آبادی)
اسی طرح عربی زبان میں ’کفر‘ ناشکری کے معانی میں بھی آتا ہے۔ اس میں بھی اس کے اصلی معانی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ جو شخص کسی کی ناشکری کرتا ہے، وہ گویا اپنے محسن کے احسان کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ جمہرۃ اللغۃ میں ہے: فلاں نے نعمت کا کفر کیا، یعنی اس پر شکریہ ادا نہیں کیا۔
البتہ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کا غالب استعمال، اسلام وایمان کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر ہوتا ہے۔ ماہرینِ لغت میں ازدی نے لکھا ہے: کفر اسلام کی ضد ہے۔ جوہری اور فیروزآبادی کہتے ہیں: کفر ایمان کی ضد ہے۔
قرآن کریم میں لفظ ’کفر‘ کا استعمال مختلف لغوی معانی کے لیے بھی ہوا ہے، اور ایمان کے بالمقابل اصطلاح کے طور پر بھی۔ ایک مقام پر وہ اصل لغوی معانی ’چھپانے‘ میں آیا ہے۔ دنیاوی زندگی کو لہو و لعب قرار دیتے ہوئے اس کی یہ مثال بیان کی گئی ہے:
’’اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے‘‘۔ (الحدید: 20)
اس آیت میں کسانوں کے لیے لفظ ’کفّار‘ لایا گیا ہے۔ کسان کو ’کافر‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھیتی کے دوران بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔ بعض مقامات پر اس کا استعمال شکر کے بالمقابل ناشکری کے معنوں میں ہوا ہے:
’’لہٰذا، تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، ناشکری نہ کرو‘‘۔ (البقرہ: 152)
’’ہم نے اسے راستہ دکھادیا، اب خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘۔ (الدھر: 3)
اور چوں کہ ناشکری نعمت کے انکار کو مستلزم ہے، اس لیے بعض مقامات پر یہ انکار اور برأت کے معانی میں آیا ہے:
’’تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنالیا ہے، مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے‘‘۔ (العنکبوت: 25)
مفسرین اور ماہرین ِ لغت نے صراحت کی ہے کہ لفظ ’کافر‘ میں وہ تمام معانی پائے جاتے ہیں، جن کے لیے اس کا عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے۔
علامہ ابن جوزیؒ نے لکھا ہے: ’’لغت میں کفر کے معنٰی چھپانے کے ہیں۔ کافر کو کافر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حق پر پردہ ڈال دیتا ہے‘‘۔ (زادالمیسر)
جوہری فرماتے ہیں: ’’کافر کو کافر اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے احسانات کا انکار کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کو چھپا لیتاہے‘‘۔(تاج اللغۃ)