لاہور( نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پاکستان میڈیکل کمیشن کی نااہلی اورمیڈیکل کے طلبہ و طالبات کا مستقبل تباہ کرنے کے حکومتی اقدامات پرشدید غم و غصے اور اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے حکمرانوں کو فوری طور پر تعلیم اور صحت دشمن اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ منصورہ سے جاری ایک بیان میں انہوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ملک بھر میں سراپا احتجاج اسٹوڈنٹس اور پروفیشنلز کے مطالبات فوری طور پر پورے کرے اور ان کے مستقبل کو تباہی سے بچائے۔ انہوں نے پاکستان میڈیکل کمیشن کے قیام اور اس کے تحت ہونے والے مختلف امتحانات میں بے ضابطگیوں کی آزادانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ حکومت فوری طور پر ڈاکٹرز اور طلبہ کی مشاورت سے مسئلے کا حل نکالے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم کا شعبہ پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جبکہ اس کے ساتھ حکومتی نااہلی اور ہٹ دھرمی بھی کورونا سے زیادہ مہلک کردار ادا کررہی ہے۔ امیر جماعت نے کہا کہ پاکستان بھر کے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھنے والے پروفیشنلز اور داخلے کے خواہش مند طلبہ اور طالبات اور ان کے والدین نے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے خلاف مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ملک بھر کے ڈاکٹرز بھی اس پرسراپا احتجاج ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت آخر کیوں ان مظلوموں کی آواز نہیں سن رہی۔ انہوں نے کہا اکتوبر 2019ء میں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرکے پی ایم سی کے قیام پر جو مہر لگائی اس نے لاکھوں طلبہ کے مستقبل کو تباہ کردیا۔پی ایم سی ایک غیر جمہوری ادارہ ہے جس میں میڈیکل کمیونٹی کو صحیح نمائندگی حاصل نہیں۔ ملک کی تمام میڈیکل کمیونٹی یک زبان ہو کر کہہ رہی ہے کہ یہ ادارہ ہیلتھ کیئر نظام کے لیے درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم سی کی جانب سے سرکاری میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے امتحانات کے دوران کورس سے باہر سوالات دینے، پیپر لیک ہونے کے اسکینڈلز بھی سامنے آئے ہیں۔ مختلف صوبوں میں میڈیکل یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے ڈومیسائل کی شرط ختم کرنے کا اقدام بھی ظالمانہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کمیشن کے قیام سے قبل پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) ہر صوبے میں اپنے حساب سے امتحانات لیتی تھی مگر اب پی ایم سی مرکزی سطح پر نہ صرف داخلہ امتحانات لے رہا ہے، ساتھ میں داخلہ بھی اسی حساب سے دیا جائے گا، جس سے طلبہ کو سخت پریشانی کا سامنا ہے۔فرض کریں ایک طالبہ کا تعلق کراچی سے ہے، اگر مرکزی میرٹ لسٹ کے حساب سے اس کا داخلہ خیبرپختونخوا کے کسی کالج میں ہوجائے تو کیا اس کے والدین یہ افورڈ کرسکتے ہیں۔ حکومت کو اتنی سمجھ ہونی چاہیے کہ مختلف صوبوں میں تعلیم کا معیار بھی مختلف ہے ایسے میں ان سب کو ایک ہی پالیسی کے تحت کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ حکومت پہلے نظام تعلیم کو یکساں کرے اور اس شعبے کو اوپر اٹھائے اس کے بعد اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے دیگر پیش رفت ہونی چاہیے۔ سندھ، بلوچستان میں طلبہ زیادہ سے زیادہ 82 یا 83 فیصد ہی مارکس لے پاتے ہیں جبکہ وفاقی بورڈ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں یہ ریشو زیادہ ہے ایسے میں سب کو ایک پالیسی کے زیراثر کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیکل کمیونٹی اور پی ایم ڈی کے مابین جو انڈراسٹینڈنگ ہوئی اس پر عمل کیا جائے۔ این ایل ای کا امتحان بھی غیر ضروری ہے۔ ایم بی بی ایس کے دوران لیے جانے والے اس امتحان سے پروفیشنلز پر اضافی بوجھ پڑے گا اور یہ ایک طرح سے ان پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کو جماعت اسلامی کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ یہ مسئلہ ہرفورم پر بھرپور طریقے سے اٹھایاجائے گا۔