پی آئی اے ریٹائرڈ ایمپلائز ایسوسی ایشن (پیارے) کی جنرل باڈی میٹنگ 18 ستمبر 2021ء سی اے اے منی مارٹ کراچی ایئر پورٹ منعقد ہوئی۔ جس میں ممبران، پی آئی اے ریٹائریز نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن حکیم سے ہوا۔ تلاوت اور نعت شریف پڑھنے کی سعادت سید فاروق حسن کو ملی۔ ابتدائی کلمات پیارے کے نائب صدر پرویز فرید نے ادا کیے۔ سیکرٹری جنرل سید طاہر حسن نے گزشتہ اجلاس عام کی کارروائی پڑھ کر سنائی۔ جس کی اجلاس نے توثیق و تصدیق کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے حالات ناساز رہے۔ میڈیکل کی سہولیات میں بڑا اتار چڑھائو رہا، باہمی روابط کے سلسلے میں انہوں نے اور قائمقام صدر چودھری اعظم نے آئوٹ اسٹیشنز، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد کا کامیاب دورہ کیا۔ اسلام آباد پی آئی اے آفس میں CHRO، اور ان کی ٹیم نے پی آئی اے ریٹائریز کے مسائل پر تفصیلی میٹنگ کی اور پنشن میں فوری طے شدہ اضافے، کمیوٹڈ پنشن کی واپسی، میڈیکل کے مسائل، NS-1 ٹکٹ کے اجراء، اسپائوس کے لیے لائف ٹائم ID کارڈ کا اجراء، پنشن کی ہر ماہ کی 10 تاریخ تک ادائیگی، تاخیر سے گریز اور دیگر مسائل زیر غور آئے۔ ان کو جلد حل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پیارے اپنے پیاروں کے مسائل حل کرنے کی کوشش جاری رکھے گی۔ اللہ کا شکر ہے کہ بڑے بڑے مسائل حل کرائے جاچکے ہیں۔ ایک اہم مسئلہ PIA فائونڈیشن کا قیام ہے۔ اس میں متعلقہ ادارے رخنہ ڈال رہے ہیں۔ مگر ہم اسے ان شاء اللہ حل کرائیں گے۔ پیارے کے سالانہ اجلاس عام سے قائمقام صدر پیارے چودھری محمد اعظم نے خطاب کیا۔ اور مذکورہ تمام مسائل کو حل کرانے کی کوشش سے شرکائے اجلاس کو تفصیل سے آگاہ کیا۔ لائف سرٹیفکیٹ کی غلط ڈیمانڈ پر اسٹیٹ بینک کو مراسلہ بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ فنانس منسٹری سے بات کرو۔ مسلسل رابطہ کررہے ہیں لکھ رہے ہیں وہ جواب ہی نہیں دیتے۔ سبھی محکموں نے ’’چُپ سادھنے‘‘ کی پالیسی اختیار کرلی ہے۔ انہوں نے بیمار ساتھیوں کی صحت یابی اور بچھڑ جانے والے ساتھیوں کی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی۔ پیارے کے اس اجلاس عام میں پیارے کے الیکشن کے انعقاد کے بارے میں بتایا گیا اور مطلع کیا کہ اس سال ماہ نومبر کے آخر یا دسمبر میں انتخاب کرانے کے لیے الیکشن کمشنر/ الیکشن کمیشن کا تقرر کرنا ہے۔ قیصر خان نے الیکشن کمشنر کی ذمہ داری کے لیے عالم حبیب کا نام پیش کیا جس کی تائید حامد سعید نے کی اور مزید کئی حاضرین نے تائید کی۔ چنانچہ عالم حبیب کو اتفاق رائے سے پیارے کا الیکشن کمشنر مقرر و منتخب کیا گیا۔ برائے انتخابات ان کو اختیار دیا گیا کہ حسب ضرورت الیکشن کمیشن کے چند اراکین کا وہ خود انتخاب کرلیں۔ آخر میں اجلاس عام سے چیئرمین پیارے ذوالفقار علی نے مختصر مگر جامع خطاب کیا۔ اجلاس عام میں نائب صدور ملک محمد اسلم، ڈاکٹر منظور عباسی، پرویز فرید (جو اسٹیج سیکرٹری تھے)، لیگل افیئرز سیکرٹری شیخ نجم الغنی، ویلفیئر سیکرٹری شیخ نثار، کوآرڈینیشن سیکرٹری ملک عبداللہ، پبلسٹی سیکرٹری اطہر علی وسیم، جوائنٹ سیکرٹریز محبوب انور، سید خورشید علی، محمد رحیم خان، رحمت علی و دیگر نے بھی شرکت کی۔ اطہر علی وسیم نے قرار دادیں پیش کیں جن کی اجلاس عام نے منظوری دی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائے خیر سے اجلاس عام اختتام پذیر ہوا۔ چائے سے تواضح کی گئی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی آئی اے انتظامیہ اور حکومت پاکستان ان پرانے ملازمین اور ان کے بچوں کی فلاح وبہبود کا خیال ہر دوسرے کسی کام سے زیادہ رکھتی۔ لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ پی آئی اے نے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کے نام سے جو ماہانہ رقم ادا کرتی ہے وہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی ناکافی ہے۔ یہ پنشن اتنی کم ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کسی کے سامنے بیان کرنے میں بھی شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ کوئی تصور کرسکتا ہے کہ سابق اسٹاف اور افسران کی پنشن صرف 3 ہزار روپے ماہانہ اور 6 ہزار روپے کے درمیان ہے۔ بعض ریٹائرڈ کو تو 3 ہزار روپے سے بھی کم پنشن دی جاتی ہے۔ اور اس پر متزاد یہ کہ اس میں دس دس پندرہ پندرہ سال تک کوئی اضافہ بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ صورتحال خود پی آئی اے انتظامیہ کے جاری کردہ اپنے سرکلر نمبر 21/2003 کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جب بھی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا تو ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ لیکن افسوس کہ اس پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ یہ اجلاس عام اس وعدہ خلافی کی مذمت کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عرصہ دراز سے پی آئی اے کے مالی حالات بوجوہ صحیح نہیں ہیں لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے باوجود پی آئی اے کے کام رُکے نہیں ہیں بلکہ سارے کام جاری و ساری ہیں۔ لیکن پھر بھی پنشنرز کے ساتھ ہی زیادتی کیوں؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے کا اپنا جو پنشن فنڈ ٹرسٹ قائم ہے اُس میں اربوں روپے کی رقم مختص ہے۔ ہم انتظامیہ سے بارہا مطالبہ کرچکے ہیں کہ یہ رقم کسی اور مد میں خرچ کرنے کے بجائے اس فنڈ کے حقدار یعنی پی آئی اے پنشنرز کو دی جائے۔ اگر آپ حقدار کو اُس کا حق دیں گے تو اللہ تعالیٰ ادارے پر بھی اپنی رحمت و برکت فرمائے گا، لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ حق تلفی کا وبال بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ اجلاس عام مطالبہ کرتا ہے کہ انتظامیہ فوری طور پر پنشن میں موجودہ مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرے۔ یا کم از کم وہ اضافہ تو کرے جو پیارے اور انتظامیہ کے مابین دو سال قبل طے ہوا تھا۔ لیکن بقایا 20 فی صد اضافہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ پنشن کا ایک حصہ وہ بھی ہوتا ہے جو انتظامیہ کمیوٹ کرلیتی ہے، یعنی اپنے پاس جمع کرلیتی ہے۔ اور ہر ملازم کو ریٹائرمنٹ کے دس سال بعد دینا ہوتا ہے لیکن افسوس کہ وہ بھی نہیں دیا گیا۔ 2019ء میں انتظامیہ نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ یہ ادائیگی کردی جائے گی لیکن 2 سال گزر گئے اور ہمارے بار بار توجہ دلانے کے باوجود یہ ادائیگی نہیں کی جارہی۔ ریٹائرڈ ملازمین کا یہ اجلاس عام مطالبہ کرتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے 10 سال مکمل ہوجانے والے ملازمین کو اُن کا یہ حق فوراً ادا کیا جائے۔ ایک اور مسئلہ جو ملازمین کے لیے اکثر سوہانِ روح بن جاتا ہے اور وہ ہے میڈیکل کا مسئلہ۔ ہمارے بار بار توجہ دلانے کے بعد کبھی تو اس کو ٹھیک کردیا جاتا ہے لیکن پھر اکثر بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور لمبے لمبے سفر کرکے آنے والے ملازمین کو میڈیکل سینٹر سے نامراد واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین جن میں زیادہ تر ضعیف اور کمزور حالت میں ہوتے ہیں اور مستقل نوعیت کی دوائیں اُن کے لیے خوراک کی حیثیت اختیار کرگئی ہوتی ہیں۔ وہ دوائوں کی بروقت عدم دستیابی سے مزید مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم کو بتایا جاتا ہے کہ کچھ کرپشن کے مسائل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن ہمارا یہ کہنا ہے کہ اس کی ذمہ داری ریٹائرڈ ملازمین پر عائد نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کا حق نہیں مارنا چاہیے۔ اسی طرح آئوٹ اسٹیشن یعنی اندرونِ ملک کے علاقوں میں بھی دوائوں کی سپلائی کی صورت حال اکثر خراب رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ دور دراز تک سفر کرکے دوائیں لینے پہنچتے ہیں لیکن دوائوں کی کمی یا عدم دستیابی کی وجہ سے انہیں بار بار مایوس اور نامراد لوٹنا پڑتا ہے اور بار بار چکر لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ اجلاس عام پی آئی اے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس صورتحال کو اپنے نوٹس میں رکھیں اور میڈیکل سہولتوں کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو آنے سے پہلے ہی تدارک کرلیا کریں۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انتظامیہ سے پنشن کی ادائیگی کی تاریخ ہر ماہ کی 10 طے کی گئی ہے لیکن متعلقہ شعبہ مسلسل اس میں تاخیر کررہا ہے اور پنشن پندرہ بیس تاریخ تک بینکوں میں آتی ہے۔ اس صورت حال سے بھی زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو دور دراز کے علاقوں سے پنشن وصول کرنے پہنچتے ہیں اور پھر انہیں واپس جانا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں ملازمین کی بیوائوں کو شدید تکالیف کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس افسوسناک صورت حال کا بھی تدارک کیا جائے۔شرکاء نے قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔