اقدار پر مبنی حقیقی جمہوری سیاست ہوتو اسٹیبلشمنٹ مداخلت کی جرات نہیں کرسکتی

269

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) ہمارے ملک میں اقدار پر مبنی حقیقی جمہوری سیاست ہو تو اسٹیبلشمنٹ مداخلت کی جرأت نہیں کرسکتی‘ سیاست دانوں کی باہمی لڑائی نے سول و فوجی بیورو کریسی کو مداخلت کا موقع دیا‘ جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کو تقسیم کرنے کیلیے ایم کیو ایم بنائی اور نواز شریف کی سرپرستی کی‘سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار بنیں‘ جماعت اسلامی کے سوا کسی جماعت نے خود کو یوسی کی سطح پر منظم نہیں کیا۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ، روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلیٰ ممتاز سیاسی تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی اور سابق وزیر مملکت، پاکستان جاگو تحریک کے بانی و معروف کالم نویس قیوم نظامی نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ کیا پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا نتیجہ ہے؟‘‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ فوجی و سول بیورو کریسی دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہوتی ہے مگر سیاست، جمہوریت اور پارلیمانی نظام مضبوط ہو تو بیورو کریسی اور فوج جیسے ادارے اپنی حدود میں رہتے ہیں مگر پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے مطابق سیاسی جماعتیں بناتی ہے اور پھر اپنی مرضی کی قیادت بھی تیار کر کے ان جماعتوں پر مسلط کرتی ہے‘ اسی طرح من پسند لوگوں کو انتخابات میں کامیاب کرانے کے لیے بڑے دھڑوں کو ان کی پشت پر کھڑا کر دیتی ہے‘ اس کے برعکس جس جماعت کو کمزور کرنا ہوتا ہے اس کے لیے بھی منفی حربے اختیارکیے جاتے ہیں اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی اسیٹبلشمنٹ کی مضبوطی اور بالادستی کا سبب بنتا ہے جو اقتدار اور مفاد کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار بننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں‘ یوں دونوں فریقین کے مفادات اور تعاون نے ہماری سیاسست میں اسیٹبلشمنٹ کو مکمل طور پر حاوی کر دیا ہے‘ اگر جمہوری قوتیں اقتدار کی ہوس کے بجائے اعلیٰ سیاسی اقدار اور جمہوری اصولوں پر متفق ہو کر ان پر کار بند ہو جائیں تو پاکستان کو اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی اور غلبے سے نجات بھی مل جائے گی اور یہ ملک ایک بہترین جمہوری مملکت بھی بن جائے گا۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ سیاست دانوں کی کمزوری کی وجہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ کو ریاستی نظام میں غلبہ حاصل کرنے کا موقع ملا ہے‘ اگر ہماری سیاسی جماعتیں بے تدبیری کی مرتکب نہ ہوں تو غیر سیاسی قوتوں کے لیے جگہ نہیں بن سکتی‘ سیاست دانوں کی باہمی لڑائی نے خرابی کو اس حد تک پہنچایا کہ جس سے سول و فوجی بیورو کریسی کو مداخلت کا موقع ملا۔ قیوم نظامی نے کہا کہ فوج کی جاہ پسندجرنیلوں نے سیاست میں دلچسپی لی اور سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور متبادل جماعتوں کی تشکیل کا کام کیا ‘جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کو تقسیم کرنے کے لیے ایم کیو ایم بنائی اور نواز شریف کی سرپرستی کی‘ بے نظیربھٹو کی بیرون ملک سے واپسی پر جنرل حمید گل نے آئی ایس آئی کے ذریعے آئی جے آئی بنوائی‘ اس طرح اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں ننگی مداخلت کی جس کے خطرناک نتائج سامنے آئے‘ سیاسی جماعتیں مستحکم نہ ہو سکیں‘ ان کی حکومتیں بھی قبل از وقت ختم کی جاتی رہیں جس کا سیاست اور جمہوریت کو نقصان پہنچا تاہم 2008ء کے بعد سے مسلسل اور بروقت انتخابات ہو رہے ہیں اور سیاستدانوں کو موقع ملا ہے کہ وہ گڈ گورننس کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کریں اور اپنی جماعتوں کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں آئین کے مطابق حکومتیں چلانے اور عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہیں‘ سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی بھی کوئی موثر اور نتیجہ خیز کوشش نہیں کی گئی، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ خاندانی اور وراثتی جماعتیں بن چکی ہیں اب اسٹیبلشمنٹ نے اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے حکمت عملی تبدیل کر لی ہے مگر جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت نے خود کو یونین کونسل کی سطح پر منظم نہیں کیا اور نہ ہی یہ جماعتیں عوام کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار ہیں‘وہ اقتدار کی سیاست کرتی ہیں‘ عوام کے مسائل پر کوئی جماعت بات نہیں کرتی ‘ لوگوں کو بھی بیدار ہونا ہو گا غلط شہرت کی حامل شخصیات کو قیادت کے منصب سے ہٹایا جائے‘ لوگ جس کو ووٹ دیں اس سے اپنے حقوق بھی مانگیں‘سیاست دان باہمی الزام تراشی کے بجائے پارلیمنٹ کے وقار کا خیال رکھیں‘ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی کریں تو معاملات اب بھی بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔