جب امریکا نے افغانستان پر قبضہ کرلیا؟

341

یہ تاریخ کا ایک المناک اور شرمناک باب تھا جب امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہورہا تھا اور طالبان آخری مزاحمت کے لیے تیار تھے اور عرب مجاہدین ان کے ہمرکاب تھے۔ اسامہ بن لادن کابل میں تھا۔ امریکا اور جنگجو کابل میں داخل ہورہے تھے۔ امریکا نے ان تمام کو جدید اسلحہ سے لیس کردیا تھا۔ امریکا نے ڈالر کی قوت کو بھی استعمال کیا۔ ملا عمر قندھار میں تھے امریکا نے ملا عمر پر بلوچستان کے ساحل پسنی سے میزائل پھینکنا شروع کردیے۔ جب کابل پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ ہوگیا تو عرب مجاہدین نے آخر تک مزاحمت کی۔ اس دوران اسامہ قندھار پہنچ گئے انہوں نے ملا عمر سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ قندھار سے نکلیں اور اسامہ بن لادن نے عرب نوجوانوں سے کہا کہ آپ کو قندھار ائر پورٹ پر بھرپور مزاحمت کرنی ہے تاکہ ہم اس عرصہ میں قندھار سے محفوظ علاقے کی طرف چلے جائیں۔ اسامہ کو طالبان سے گلہ تھا کہ انہوں نے اس طرح مزاحمت نہیں کی جو ہمیں مطلوب تھی۔ عرب نوجوانوں نے تاریخی مزاحمت کی اور کسی نے بھی راہ فرار اختیار نہیں کی اور اکثر نوجوان قندھار ائرپورٹ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس عرصہ میں اسامہ بن لادن اور ملا عمر اپنے کمانڈروں کے ساتھ قندھار سے نکل گئے۔ بلوچستان کا پسنی ساحل امریکی بحریہ کے قبضہ میں تھا۔ امریکی کمان کا بیان تھا کہ ہم نے ویت نام میں اتنے حملے نہیں کیے جتنے افغانستان میں کیے۔ یوں طالبان اور عرب مجاہدین دفاع کرتے ہوئے محفوظ علاقوں میں نکل گئے۔
فی الحال حوالے سے تجزیہ کررہا ہوں۔ ماہ دسمبر میں میرا کراچی آنا ہوتا ہے، کراچی میں تھا جماعت اسلامی کراچی کے دفتر پہنچا وہاں کراچی کے نائب امیر مظفر ہاشمی مرحوم سے ملاقات ہوئی ،کراچی جب بھی آنا ہوتا تھا ان سے ملاقات ضرور ہوتی اور چائے کا دور چلتا اور بلوچستان کے حوالے سے تجزیہ کرتا تھا جمعیت الفلاح میں وہ بڑے اہتمام سے نشست رکھتے تھے۔ ایران اور بلوچستان پر کئی بار تجزیہ کر چکا ہوں اس بار انہوں نے کہا افغانستان پر آپ کا تجزیہ سننا چاہتے ہیں عصر کے بعد وہاں پہنچ گیا۔ اس نشست میں کوئی 25 سے 30 کے لگ بھگ سامعین موجود تھے۔ سامعین میں پروفیسر، ڈاکٹر اور دانشور موجود تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ صورت حال بڑی مایوس کن ہے کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ طالبان کی حکومت یوں چند دنوں یا ہفتوں میں دم توڑ دے گی۔ اس وقت تحریک اسلامی میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ ہم سب پریشان تھے کہ ایک مسلم افغانستان امریکا اور یورپ کی گرفت میں آچکا تھا۔ قفس میں پھڑپھڑاتے ہوئے پرندے کی مانند افغانستان امریکی شکنجے میں جکڑا ہوا تھا یہ ایک تاریخی ہر حزیمت اور المیہ تھا، مسلم دنیا حیران، پریشان تھی پاکستان کا منافق لیفٹ خوشی کے شادیانے بجا رہا تھا۔ ایسے حوصلہ شکن ماحول میں تجزیے کے لیے ذہن کو تیار کررہا تھاتقریب کے ناظم نے میرا نام پکارا اور افغانستان کی تازہ صورت حال پر تجزیہ کرنے کی دعوت دی۔ کوئی 40 منٹ کا تجزیہ کیا اور باقی وقت سوالوں کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ جو کچھ کہا اب وہ کل کی بات لگتی ہے۔ مجھے خود بھی پریشانی تھی اور ذہن سوچ رہا تھا کہ اس مایوس کن حالات میں کس طرح تجزیہ کیا جائے اور سامعین کو کس طرح مطمئن کیا جائے اور مایوسی کے بھنور سے نکلا جائے۔ اللہ کا نام لے کر تجزیہ شروع کیا، میرے ذہن میں کچھ اہم نکات تھے، اس لیے ان حوالوں سے بات شروع کی۔ اپنے سامعین سے کہا کہ آپ لوگ شدید مایوسی کا شکار ہیں اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ پہلا یہ تجزیہ کیا کہ طالبان اب تھگ گئے ہیں اس لیے یہ 3 سال کے بعد دوبارہ جدوجہد کریں گے۔ اور یہ بھی کہا کہ امریکا کو افغانستان میں شکست ہوگی۔
یہ تجزیہ تقریباً 19برس کے بعد پورا ہوگیا اور اب امریکا مع ناٹو کے شکست سے دوچار ہوگیا اور امریکا کی تشکیل کردہ فوج طالبان کا مقابلہ نہ کرسکی اور بکھر گئی افغانستان دوبارہ طالبان کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔ ایک تجزیہ یہ بھی تھا کہ جب بھی کوئی سپر پاور شکست کھاتی ہے تو جغرافیائی تبدیلیاں لازماً رونما ہوتی ہیں، سلطنت عثمانیہ نے شکست کھائی تو بکھر گئی اور سکڑ سکڑ کر ترکی بن گیا۔ سوویت یونین نے شکست کھائی تو وہ سپر پاور نہ رہا اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوگئیں۔ کئی ریاستیں آزاد ہوگئیں اور سوویت یونین واپس روس بن گیا۔ اور جب افغانستان میں برطانیہ نے امان اللہ خان کے دور حکومت میں شکست کھائی تو اس پر بھی زوال آگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد برصغیر ہند آزاد ہوگیا اور وہ تقسیم ہوگیا اور پاکستان بن گیا۔ اس کے بعد اس کے بعد برطانیہ کے سکڑنے کا عمل جاری رہا۔ اب امریکا تاریخ کے ان لمحوں میں اس کے بکھرنے کا عمل شروع ہوجائے گا۔ کتنا عرصہ لگے گا اس کو ہم مستقبل کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ کشمیر بھی آزادی سے ہمکنار ہوجائے گا اور کئی تبدیلیاں اس خطے میں ظہور پزیر ہوجائیں گی۔
افغانستان کی 3½ لاکھ فوج کا مفلوج ہوجاتا اور مقابلہ نہ کرنا یہ تاریخ کا بہت اہم باب ہے۔ امریکا نے اس کی تربیت تو کی مگر اس کے اندر جذبہ پیدا نہیں کرسکا۔ اور وہ طالبان کے سامنے ٹھیر نہ سکی اور افغانستان سے ایسی غائب ہوگئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس تبدیلی کے بعد اب پاکستان بہت بہتر پوزیشن میں آگیا ہے اور اس سے سرحدیں افغانستان کے ساتھ زیادہ پرامن ہوجائیں گی اور وہاں بھارت کی سرگرمیاں مانند پڑ جائیں گی۔ اور طالبان آہستہ آہستہ ایک مستحکم افغانستان کی تشکیل کردیں گے۔ یہ تاریخ کا حیرت انگیز باب ہے کہ اپنے وقت کی اہم سپر پاور نے شکست کھائی ہے۔ سوویت یونین کی شکست کے بعد سوشلزم کا فلسفہ معدوم ہوگیا اب وہ ماضی کا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ افغانستان کے حالات کا تجزیہ وقت کے ساتھ ہوتا رہے گا اور ہمارے سامنے کئی نئے پہلو آشکار ہوجائیں گے۔ امریکا نے کیوں شکست کھائی اس پر تفصیل سے تجزیہ کی ضرورت ہے۔