اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک+آن لائن) چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ سمجھ نہیں آتا بار کونسلز کی ججز تقرری میں احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔عدالت عظمیٰ میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال ہر لحاظ سے دنیا بھر سمیت پاکستان کے لیے بھی مشکل سال تھا، کورونا کے باعث مقدمات کو نمٹانے کی راہ میں زیادہ مشکلات کا سامنا رہا پھر بھی عدالتوں کا دروازہ عوام کے لیے کھلا رکھا، کورونا وائرس کے باعث عدالتوں میں زیر التوامقدمات میں اضافہ ہوا، زیر التوا مقدمات میں اضافہ وکلاکا کورونا کی وجہ سے عدالتوں میں پیش نہ ہونا بھی ہے، گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر 45 ہزار 644 زیر التوا مقدمات تھے،گزشتہ سال میں 20 ہزار 910 نئے مقدمات درج ہوئے جب کہ 12 ہزار 968 مقدمات نمٹائے گئے، نمٹائے جانے والے مقدمات میں 6 ہزار 797 سول پٹیشن، ایک ہزار 916 سول اپیلیں اور 469 نظر ثانی درخواستیں، 2 ہزار 625 کرمنل پٹیشنز، 681 کرمنل اپیلیں ،37 کرمنل نظر ثانی درخواستیں اور 100 اوریجنل کرمنل درخواستیں نمٹائی گئیں۔جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ میں وڈیو لنک کے ذریعے بھی مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ججز تقرری کے معاملے پر بار کونسلز کی رائے ہمیشہ لی گئی ہے، اس معاملے پر بار کونسلز کے صدور کو متعدد بار دعوت دی لیکن بار کونسلز کے صدور کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ پشاور میں ہیں، سمجھ نہیں آتا بار کونسلز کی ججز تقرری میں احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں، بار کونسلز اور وکلاکے لیے اب بھی دروازے کھلے ہیں، بار کونسلز اور وکلاججز تقرری کے معاملے پر آ کر مجھ سے بات چیت کریں۔