کورونا وائرس کے باعث عدالتوں میں زیر التوامقدمات میں اضافہ ہوا ہے، چیف جسٹس پاکستان

454

اسلام آباد: چیف جسٹس کا کہناتھاکہ گزشتہ عدالتی سال ہر لحاظ سے دنیا بھر سمیت پاکستان کیلئے بھی مشکل سال تھا، کورونا کے باعث مقدمات کو نمٹانے کی راہ میں زیادہ مشکلات کا سامنا رہا ہے پھر بھی ہم نے عدالتوں کے دروازے عوام کیلیے کھلا رکھےجبکہ کورونا وائرس کے باعث عدالتوں میں زیر التواء مقدمات میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے  چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد  کا کہنا تھا کہ گزشتہ عدالتی سال ہر لحاظ سےپاکستان سمیت دنیا کیلیے مشکل سال تھا، کورونا کے باعث مقدمات نمٹانے کی راہ میں زیادہ مشکلات کا سامنا رہا ہے۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ زیر التواء مقدمات میں اضافہ وکلاء کا کورونا کی وجہ سے عدالتوں میں پیش نہ ہونا بھی ہے، گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر 45 ہزار 644 زیر التواء مقدمات تھے۔

ان کامزیدکہنا تھا کہ گزشتہ سال میں 20 ہزار 910 نئے مقدمات درج ہوئے جب کہ 12 ہزار 968 مقدمات نمٹائے گئے، نمٹائے جانے والے مقدمات میں 6 ہزار 797 سول پٹیشن، ایک ہزار 916 سول اپیلیں اور 469 نظر ثانی درخواستیں، 2 ہزار 625 کرمنل پٹیشنز، 681 کرمنل اپیلیں ،37 کرمنل نظر ثانی درخواستیں اور 100 اوریجنل کرمنل درخواستیں نمٹائی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے جبکہ نیشنل جوڈیشل کمیٹی نے ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی 10سالہ کارکردگی کا جائزہ بھی لیا اور پشاور ہائیکورٹ کو تجویز دی قبائلی علاقے ضم ہونے کے بعد ججوں کی تعداد بھی بڑھائی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ججز تقرری کے معاملے پر ہمیشہ بار کونسلز کی رائے ہمیشہ لی گئی ہے، اس معاملے پر بار کونسلز کے صدور کو متعدد بار دعوت دی لیکن بار کونسلز کے صدور کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ پشاور میں ہیں، سمجھ نہیں آتی بار کونسلز کی ججز تقرری میں احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں، بار کونسلز اور وکلاء کے لیے اب بھی دروازے کھلے ہیں، بار کونسلز اور وکلاء ججز تقرری کے معاملے پر آ کر مجھ سے بات چیت کریں۔

خیال رہے  ان کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹس کو عدالتوں کی تزین و آرائش کیلئے فنڈز فراہم کئے گئے، لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے مفت قانونی رہنمائی کیلئے ڈسٹرکٹ ایمپاورمنٹ کمیٹی قائم کی گئی۔

واضح رہے نئے عدالتی سال کے آغاز پر سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا گیا، فل کورٹ ریفرنس کی صدارت چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کی جبکہ   فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ ریفرنس کا مقصد گزشتہ سال کی کرکاردگی اور نئے سال کی منزل کا تعین کرنا ہے۔