حافظ نعیم الرحمن کراچی کا وارث

824

اے ابن آدم مسائل پر گفتگو کرنا، غریب عوام کے مسائل کے لیے لڑنا، آواز حق بلند کرنا، ہر کسی کے بس کا کام نہیں۔ 35 سال سے میں بھی قلم سے یہ جنگ لڑ رہا ہوں۔ راہ ٹی وی پر عوامی مسائل کے حوالے سے پروگرام آواز ابن آدم اینکر رہا۔ معاشرتی مسائل، معاشرتی ناہمواری پر میری بڑی گہری نظر ہے، ملک اور کراچی کی سیاست پر بے شمار کالم تحریر کرچکا ہوں۔ ہمیشہ سے ایک غیر سیاسی قلم کار بن کر اپنی شناخت بنائی، مجھے جماعت اسلامی پسند ہے اُس کی وجہ اصول پرستی اور میرٹ پر امیر کا منتخب ہونا، شوریٰ کا نظام ایک اسلامی نظام ہے اور جماعت اسلامی ایک اسلامی تحریک کانام ہے۔ سابق امیر کراچی مرحوم پروفیسر عبدالغفور میرے استادوں میں سے تھے۔ میری ان سے بے شمار ملاقاتیں ان کے ایف بی ایریا والے گھر میں ہوتی تھیں وہ ایک نہایت ایماندار، بے خوف، باعمل، باعلم انسان تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں نے سماجی جماعت قومی استحکام کو نسل پاکستان بنائی اور کئی شامیں پروفیسر صاحب کے گھر پر گزاریں۔ اس وقت ایم کیو ایم کا کراچی میں عروج تھا، پرانے اور شریف سیاست دانوں نے حالات دیکھ کر کنارہ کشی اختیار کرلی، کیوں کہ لوگوں کو فون پر دھمکیاں موصول ہوتی تھیں مگر پروفیسر صاحب بے خوف تنہا گاڑی میں پورے شہر کا دورہ کرتے، میں نے کتنی بار کہا کہ آپ پولیس گارڈ رکھ لیں تو کہتے کہ موت تو برحق ہے اس سے کیا ڈرنا۔ یہ بھی میرے بچوں کی طرح ہیں اقتدار کا جوش ہے بہت جلد ان کو اچھے برے کی تمیز آجائے گی۔
ویسے تو جماعت اسلامی کی پوری قیادت کا ماضی بے داغ ہے مگر آج میں بات حافظ نعیم الرحمن کی کروں گا، کسی کو بُرا لگتا ہے تو لگے مگر جو سچ ہے وہ لکھنا بھی ضروری ہے۔ میری حافظ صاحب سے 2 یا 3 بار ملاقاتیں ہوئی ہیں مگر ان کا کراچی کے مسائل پر آواز حق کو بلند کرنا مجھے بے حد پسند ہے۔ میرے مطابق ایسے باعمل، بے خوف، باعلم انسان کو سندھ کا وزیراعلیٰ یا گورنر ہونا چاہیے مگر یہ ہماری قوم کی بدنصیبی ہے کہ ہم نے کبھی اپنے لیے ایماندار قیادت کو منتخب نہیں کیا، ہمیشہ کرپٹ اور چوروں کو ووٹ دیا جس کا نتیجہ آج ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو اپنے آپ کو کراچی کا وارث کہتے تھے انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے کراچی کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ شہر لاوارث ہوگیا ایسے میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کراچی کے عوام کے مسیحا بن کر سامنے آئے۔ پانی، بجلی، گیس، تجاوزات، پرائیویٹ اسکولوں کے مسائل، بلدیاتی مسائل سب پر کھل کر بات کی۔ کے ای کو لگام دینے کے لیے کسی سیاسی جماعت نے آواز بلند نہیں کی۔ نعیم الرحمن نے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عدالت سے رجوع کیا۔ شہر بھر میں جگہ جگہ کے ای کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ کاش ہمارے ملک میں انصاف کا بول بالا ہوتا تو حافظ صاحب کراچی والوں کے لیے انصاف ضرور حاصل کرلیتے جب ملک میں انصاف فروخت ہونے لگے تو اس ملک میں کبھی استحکام آہی نہیں سکتا۔ سیاسی دبائو پر فیصلے ہوں تو معاشرے میں ناہمواری جنم لیتی ہے۔
آج اللہ کے کرم سے 4K کی چورنگی تعمیر ہوگئی ہے جس کا اصل سہرا نعیم الرحمن کے سر پر ہے۔ اس چورنگی کی حالت کھنڈرات سے کم نہ تھی مگر نعیم الرحمن جب کوئی فیصلہ کرلیتے تھے تو اُس سے واپس نہیں ہوتے۔ کراچی تجاوزات سے بھرا شہر ہے، شہر کا انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے، یہ سب کئی سال سے ریاست کی سرپرستی میں ہورہا ہے، اب چند سال سے عدالت عظمیٰ تجاوزات کے خاتمے کے لیے بڑے بڑے فیصلے دے رہی ہے، غیر قانونی لیز کا عمل بھی برسوں سے جاری ہے، جس کو موقع ملا اس نے کراچی والوں پر ہاتھ صاف کیا۔ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے علاوہ بھی کچھ بااثر لینڈ مافیا اس عمل سے مال بناتی رہی۔ بحریہ ٹائون کے ملک ریاض کو کون نہیں جانتا کہ وہ کتنے بااثر شخص ہیں مگر حافظ نعیم الرحمن بحریہ ٹائون کے متاثرین کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ وزیراعظم صاحب نے کراچی کے لیے 11سو ارب کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا جو آج تک ہوا میں ہے۔ اس پر سوال اٹھانے والے امیر کراچی ہیں، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے بھی وہ میدان عمل میں نظر آتے ہیں جس وقت نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم عدالت نے دیا حافظ نعیم الرحمن پہلے لیڈر تھے جو موقع پر موجود تھے کیوں کہ نسلہ ٹاور کے متاثرین جن میں معمر، معذور، خواتین اور بچے شامل تھے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ ایسے موقعے پر امیر کراچی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ جن لوگوں کے مکانات اور تعمیرات گرانے کا حکم دیا ہے ان کی بھی بات سنیں اور ان تمام لوگوں کو بھی قانون کی گرفت میں لائیں جن کی سرپرستی میں یہ ناجائز کام ہوا ہے۔ ہم عدالت کی معاونت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ نسلہ ٹاور کے تمام کاغذات حکومتی محکمے سے منظور شدہ ہیں۔ انہوں نے کیا خوب بات کی کہ جب بنی گالہ کو ریگولرائز کیا جاسکتا ہے تو پھر کراچی میں یہ اقدام کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت بڑے اور طاقتور لوگوں کے خلاف بھی تو فیصلے دے۔ KE کراچی والوں کو لوٹ رہی ہے اس کو دوبارہ قومی تحویل میں لینے کا بھی حکم دیا جائے۔ شہر میں جب چائنا کٹنگ ہورہی تھی، پارکوں پر قبضے ہورہے تھے، اس وقت بھی جماعت اسلامی نے آواز اٹھائی لیکن کسی نے نہیں سنا۔ ہماری درخواست ہے کہ ان سب کو بھی عدالت میں طلب کیا جائے اور 3 کروڑ سے زائد کراچی کی عوام کو انصاف دلوایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام کا کوٹا سسٹم اور جعلی مردم شماری کے ذریعے حق مارا گیا۔ کیا پیارا سوال کیا مزا آگیا کہ جب یہ عمارت بن رہی تھی تو سب کہاں تھے۔ 5 سال گزر گئے لوگوں کو رہائش اختیار کیے ہوئے تو کہا جارہا ہے کہ اسے توڑ دو، جب کہ ذمے داروں کے لیے کوئی سزا نہیں ہے۔ مافیا پیسے بناتا رہے گا اور عام آدمی ذلیل و رسوا ہوتا رہے گا۔ اب اس لوٹ مار کے سلسلے کو بند ہونا چاہیے۔ قارئین آپ ایمانداری سے یہ فیصلہ کریں کہ ہر برے وقت میں عوام کے ساتھ کون کھڑا ہوتا ہے، میں ایک بار پھر پاکستان کے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ کم از کم ایک بار جماعت اسلامی کو ملک میں حکومت کرنے کا ضرور موقع دیا جائے۔ یہ مان لیتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم کرپٹ نہیں ہیں مگر ان کے اطراف کرپٹ لوگوں کی لمبی قطار ہیں جو ان کو کام کرنے نہیں دے رہے ہیں۔ ریاست مدینہ کا خواب تو بہت اچھا ہے مگر اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے قربانی کے ساتھ بڑے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔