ماضی گواہ ہے کہ ہر دور میں اقتدار پر قابض ٹولے نے قوم کے مسائل کو پیروں تلے روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ قوم پچھلے ۷۴ برس سے بہتر نظام کی خواہش میں اپنے قیمتی ووٹ کا صرف اس لیے استعمال کرتی آئی ہے کہ شاید اب ان کے بنیادی مسائل کو حل کر دیا جائے گا۔ شاید اب ان کو علاج، تعلیم، روزگار، انصاف کی جلد فراہمی ممکن بنا دی جائے گی، ایک ایسا نظام قائم ہوجائے گا جہاں امیر غریب کا فرق نہیں ہوگا۔ غور کیجیے کہ اس قوم نے اپنے حکمرانوں سے ووٹ کے بدلے کیا مانگا ہے کوئی وزرات، کوئی اعلیٰ افسر کی پوسٹ یا بڑی بڑی مراعات یا وہ عش آرام جس کے بغیر اشرافیہ کی سانسیں بحال نہیں ہوتیں۔ ایسی بڑی بڑی خواہش اس غریب متوسطہ طبقے نے کبھی نہیں کی، روٹی کپڑا مکان صرف ایک سیاسی جماعت کا نعرہ تو ہو سکتا ہے مگر اس قوم کا مطالبہ کبھی نہیں رہا اور نہ ہی یہ نعرہ لگانے والی جماعت اس نعرے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قوم نے با عزت روزگار، بہتر علاج، بہتر تعلیم، مہنگائی مافیہ کا خاتمہ اور سستے انصاف کے سوا حکمرانوں سے کوئی مطالبہ نہیں کیا مگر ہر حکومت نے ان کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔
موجودہ حکومت نے غریب عوام کی مہنگائی کہ ہاتھوں چیخیں نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی خان صاحب کا قوم سے کیا ہر دعویٰ دم توڑ چکا ہے تین سال گزر جانے کے باوجود خان صاحب کی حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے، گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا کہ تبدیلی ایک بٹن دبانے سے نہیں آسکتی یقینا خان صاحب نے درست فرمایا مگر خان صاحب پھر آپ نے اقتدار حاصل کرنے سے پہلے قوم کو کیوں سہانے خواب دیکھائے؟ کیا آپ بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح اس قوم کے جذبات سے کھیلے ہیں؟ کیا وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور گورنر ہائوس درس گاہوں میں تبدیل ہوگئے؟ اس قوم کی بیٹی عافیہ رہا ہوگئی؟ ۳۰۰ ڈیموں کی بنیاد ڈال دی گئی؟ لوٹا ہوا ۲۰۰ ارب ڈالر باہر سے آگیا؟ تھانہ کلچر تبدیل ہوگیا؟ مہنگائی کا خاتمہ کر دیا گیا، لوگ باہر سے نوکریاں لینے آگئے ہیں، کرپشن فری پاکستان بن گیا، ہمارا وزیر اعظم سائیکل پر اور ہمارے وزیر مشیر عوامی ٹرانسپورٹ میں دفتر آتے جاتے ہیں، اس ملک کا ہر ادارہ اپنے دائر اختیار میں کام کر رہا ہے، ملک کا عدالتی نظام صبح شام غریب کو انصاف کی فوری فراہمی میں مصروف ہے اس قوم کی بہن بیٹی ریاست مدینہ کہ طرز کے پاکستان میں محفوظ ہیں اس طرح کے کئی وعدے دعوے جو خان صاحب آپ نے اس مایوس قوم سے کیے تھے وہ پورے کرنے میں آپ ناکام رہے ہیں۔
دعوے وعدے سہانے خواب دکھانا سیاستدانوں کا ایک ہتھیار ہے جس کے ذریعے اقتدار تک پہنچا جاتا ہے یہ کام ماضی کی حکمران جماعتیں بھی کرتی رہی ہیں موجودہ حکومت نے بھی یہی کام کیا۔ میری ذات سے احتساب شروع کرنے کا دعویٰ کرنے والے خان صاحب نے اپنے لوگوں کی کرپشن پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں یہی وہ رویہ ہے جس نے آج احتساب کو تماشا بنا دیا ہے، ماضی میں خان صاحب چند اداروں میں اصلاحات لانے پر زور دیا کرتے تھے مگر تین سال گزار جانے کہ باوجود کسی ایک ادارے میں بھی اصلاحات نہیں لا سکے الیکشن کمیشن، عدالتی نظام، پولیس کلچر، نیب احتساب عدالتوں سمیت کسی بھی ادارے میں اصلاحات نہیں لائی جاسکیں۔ خان صاحب کی حکومت نے یقینا قوم کو مایوس کیا ہے اگر محترم وزیر اعظم کوئی ایک کام پوری ایمان داری اور توجہ کے ساتھ انجام دے جاتے تو شاید اس مایوس قوم میں کچھ حوصلہ پیدا ہوجاتا۔ اگر خان صاحب مہنگائی بے روزگاری کا خاتمہ فوری نہیں کر سکتے تھے تو کم از کم اس قوم کے سامنے قومی خزانے ملک بیرون ملک ناجائز اثاثے بنانے والوں کو تو سزائیں دلا سکتے تھے۔ عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کو لندن پہنچانے کے بجائے ان کے انجام تک پہنچانے کی جدوجہد تو کر سکتے تھے۔ صبح شام ملک کے ریاستی اداروں کو گالیاں دینے والوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کی جدوجہد تو کی جاسکتی تھی۔
وزیر اعظم صاحب یقینا ملک اور اس کہ اداروں کا بہتر مضبوط نظام ہی عوام کو بہتر موثر سہولتیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اگر تین سال صرف چند اداروں جن میں بہتر اصلاحات پر توجہ دی جاتی تو شاید یہ ملک و قوم نئے پاکستان کی جانب گامزن ہوجاتی جہاں ہر سطح پر انصاف اور قانون کی بالا دستی ممکن بنائی جا سکے ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت بھی حکومت کے پاس دوسال کا عرصہ ہے جس میں تمام تر سیاسی اختلافات سے ہٹ کر بہتر موثر نظام کے ذریعے اداروں سے کرپشن کا خاتمہ اور قانون کی بالادستی قائم کی جاسکتی ہے۔ محترم وزیر اعظم ملک کو بہتر مضبوط موثر شفاف نظام دینے کے لیے اب بھی آپ کے پاس دو سال کا عرصہ موجود ہے خدارہ اس قوم کو بہتر نظام دے کر ہی نئے پاکستان اور ریاست مدینہ کی طرز کے پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔