دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ سراسر ناکام رہی؟

975

بیس سال پہلے گیارہ ستمبر کو امریکا میں انیس افراد نے چار طیارے پرواز کے دوران ہائی جیک کر کے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈنگ سینٹر کے جڑواں ٹاوروں سے ٹکرائے تھے جن میں ہائی جیکرس سمیت نو سو چھیانوے افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت امریکیوں کی تھی ان کے ساتھ سعودی عرب کے شہری اور عرب ممالک کے افراد بھی شامل تھے۔ اس حملے کے جواب میں چودہ ستمبر دو ہزار ایک کو امریکا نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کیا تھا جس کا اصل مقصد اسامہ بن لادن اور ابو مصعب الزرقاوی کی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کا قلع قمع کرنا تھا۔ بش انتظامیہ نے اس جنگ کا اصل نشانہ افغانستان کو بنایا اور بڑے پیمانہ پر خونریزی کے ساتھ افغانستان میں طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے لیڈروں کو امریکا کے حوالہ کیا جائے۔ یہ آغاز تھا افغانستان سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا۔ بعد میں اس عالمی جنگ میں بھر پور انداز سے شمالی افریقا عراق اور پاکستان کو بھی شامل کر لیا گیا۔
گیارہ ستمبر کے حملے کے بعد صدر بش کے الٹی میٹم پر پاکستان کے فوجی آمر پرویز مشرف نے ایک لمحہ کے تامل کے بغیر امریکا کو افغانستان پر حملہ کے لیے پاکستان کے تین فضائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اسی جنگ کے دوران 2002 میں اسامہ بن لادن نے امریکی عوام کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ وہ امریکا کے خلاف اس لیے لڑ رہے ہیں کیونکہ امریکا کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان کی حمایت کرتا ہے۔ امریکا نے ستمبر 2009 میں اسامہ بن لادن کی رائے کی تصدیق کر دی جب امریکا نے ایک ڈرون حملہ میں کشمیر کی آزادی کی تنظیم حرکت المجاہدین اسلامی کے سربراہ الیاس کشمیری کو ہلاک کردیا۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دائرے میں افغانستان کے ساتھ فلپائن، شمالی افریقا، عراق اور پاکستان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ یہ عالمی جنگ پورے زور شور سے مئی 2013 تک جاری رہی۔ آخر کار بارہ سال کی بے نتیجہ جنگ کے بعد صدر اوباما نے اس جنگ کے خاتمہ کا اعلان کیا اور کہا کہ صرف ان تنظیموں کے خلاف جنگ جاری رہے گی جو امریکا کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ وہاں جمہوریت کے قیام کی کاوشیں جاری رکھی جائیں گی۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ افغانستان میں جمہوری نظام کے قیام کی کوششوں میں پیش رفت ہو رہی ہے افغانستان میں کمزور صدر اشرف غنی کو اقتدار سونپا گیا لیکن یہ تجربہ افغان عوام کے عدم اعتماد کی وجہ سے آخر کار ناکام ثابت ہوا اور طالبان کے طوفان کے سامنے ٹھپ پڑ گیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مغربی طاقتوں کا جو عوام دشمن رول رہا ہے اسے مغربی پریس نے بڑی کامیابی سے چھپایا ہے۔ یہ حقیقت بہت عرصہ بعدسامنے آئی کہ اکتوبر 2001 میں افغانستان میں امریکی حملہ میں برطانیہ نے بھر پور انداز سے حمایت کی اور عملی مدد کی جس کے نتیجہ میں بیس ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ امریکا کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ساڑھے نو لاکھ فوجی اور ساڑھے تین لاکھ شہری ہلاک ہوئے اور امریکا کے آٹھ ہزار ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اتنی ہلاکتوں اور بھاری اخراجات کے باوجود یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب رہی اور دہشت گردی کا عذاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب بھی دہشت گردی کے سائے دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔