اے شہیدِ مردِ میدان وفا تجھ پر سلام
تجھ پہ لاکھوں رحمتیں لا انتہا تجھ پر سلام
ہند کی قسمت ہی میں رسوائی کا سامان تھا
ورنہ تو ہی عہد آزادی کا ایک عنوان تھا
سیماب اکبر آبادی کے یہ اشعار جو انہوں نے عظیم مجاہد اسلام ٹیپو سلطان شہید کے لیے لکھے تھے مگر اشعار اپنے مفہوم میں ہر اس حریت پسند کے لیے صادق آتا ہے جو ایک آزاد اسلامی ریاست کی خاطر جدوجہد کا عنوان بنے گا اور اپنی پوری زندگی کو اسی راستے پر کھپا دے گا۔ اس پہلو سے ٹیپو سلطان شہید بھی مردِ میدانِ وفا تھے اور سید علی گیلانیؒ بھی اسی ہند کی رسوائی کا ساماں تھے۔ وہ بابائے حریت کہ جنہوں نے اپنی زندگی کے سولہ سال قید اور نظر بند میں گزارے مگر اپنی تحریک حریت کشمیر کی قیادت کا حق ادا کرگئے۔ جس طرح ٹیپوسلطان نے مسلمانوں کی آزادی کا تحفظ کیا اور اس بے جگری سے انگریز سامراج کے خلاف جہاد کیا کہ انگریزوں کے لیے ایک خوف کی علامت بن گئے شہادت کے بعد ڈر کے مارے کوئی ان کے قریب نہ گیا اس وقت تک کہ جب تک یقین نہ آگیا کہ ٹیپو سطان شہید ہوچکے ہے۔ سید صاحب کے انتقال کے وقت بھی سامراج کے خوف کا یہ عالم تھا کہ انتقال کی خبر ملتے ہی مقبوضہ وادی میں سرکاری ادارے حرکت میں آگئے اور فوج اور پولیس کے اہلکاروں کا اضافہ کردیا گیا اور سری نگر میں تو سخت کرفیو نافذ کردیا گیا کشمیری عوام کو اپنے محبوب قائد کے جنازے میں شرکت سے روک دیا گیا۔ عظیم کشمیری حریت پسند مجاہد سید علی گیلانی، جن کی ساری زندگی جہاد کا عنوان بن چکی تھی۔ وہ لاکھوں کشمیریوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ سید علی گیلانی تحریک آزادی کشمیر کے عظیم قائد اور شہداء کشمیر کے امین تھے۔ پاکستانی پرچم میں لپٹے اس عظیم مجاہد اور سچے پاکستانی کی لاش گھر والوں پر تشدد کرکے چھین کر پولیس اور خفیہ ادارے رات کی تاریکی میں لے گئے اور حیدر پورہ کے قبرستان میں سید صاحب کی لاش دفن کردی۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے ہندو سامراج یہ سمجھا تھا کہ کشمیری عوام کی جدوجہد ماند پڑجائے گی مگر آج تحریک حریت پہلے سے زیادہ توانا ہے پورے مقبوضہ کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کریا گیا ہے مگر اب آزادی کا نعرہ ٔ مستانہ ہر کشمیری کی زبان پر ہے۔ پانچ دہائیوں پر مشتمل یہ جدوجہد آزادی ہر آنے والے دن ایک نئی آن بان سے آگے کی طرف گامزن ہے۔ دار فانی سے رخصت ہونے سے چند دن قبل امریکا اور ناٹو افواج کی بدترین شکست اور طالبان کی شاندار فتح پر انہوں نے طالبان کو مبارکباد دی تھی کیونکہ رشتہ ایمانی کی وجہ سے ایک مسلمان بھائی کی کامیابی کی خوشی دوسرا مسلمان بھی خوشی محسوس کرتاہے۔ وہ جانتے تھے کہ جس طرح مجاہدین اسلام نے 54ممالک کی فوجوں کو بیس سال تک ناک سے چنے چبوائے رکھا اور اللہ کی راہ میں ثابت قدمی دکھائی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نصرت عطا کی بالکل ایسی طرح ایک دن جدوجہد آزادی کشمیر بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور ہندوستان ذلّت کے ساتھ کشمیر سے فرار ہوگا۔ سید علی گیلانی ایک صاحب بصیرت انسان تھے کہ ایک دن اہل کشمیر ہندوستان کے ظلم و ستم سے آزادی حاصل کریں گے اور پاکستان کا حصّہ بنیں گے۔
سید علی گیلانی ایک نڈر اور بے باک قائد تھے آپ ایک اصول پسند انسان تھے سید علی گیلانی بھارتی مقبوضے میں ہوتے ہوئے بھی ایک سچّے پاکستانی تھے ان کو پاکستان کے ساتھ عشق تھا۔ آج بھی ان کا نعرہ ٔ مستانہ کشمیر اور کشمیر سے باہر بھی گونج رہا ہے کہ اسلام کی نسبت سے، اسلام کی محبت سے اور اسلام کے تعلق سے پاکستا ہمارا ہے اور ہم پاکستانی ہیں۔۔۔ پاکستان ہمارا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بالخصوص جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں بغیر اہل کشمیر کے مشورے سے ایک انوکھا حل پیش کردیا جو اہل کشمیر کو کسی قیمت پر قابل قبول نہیں تھا۔ سید علی گیلانی کی نگاہِ دور رس نے دیکھ لیا کہ اہل کشمیر کے خلاف یہ سازش ہورہی ہے آپ نے اس سمجھوتے کو مسترد کردیا اور یہ جنرل پرویز مشرف کو یہ باورکرایا کہ ایسا کوئی حل اہل کشمیر قبول نہیں کریں گے جس میں اہل کشمیر کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے حکمرانوں پر یہ واضح کیا کہ کشمیر کا فیصلہ حق خود ارادیت کے طے شدہ اصولوں کے ذریعے کیا جائے۔ اس سے انحراف اہل کشمیر کے ساتھ کھلی غداری ہے۔
سید علی گیلانیؒ نے ایک طویل تحریکی زندگی گزاری، سید صاحب ایک علم دوست شخصیت تھے ان کو عربی، فارسی اور اردو پر دسترس حاصل تھی تحریکی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تحریر ی کام بھی کیا، کئی گراں مایہ تصانیف آ پ سے منسوب ہیں جن میں مشہور ’’مقتل سے واپسی‘‘، ’’روداد قفس‘‘ ہیں۔ علامہ اقبال اور سید مودودیؒ سے بڑے مداح تھے زمانہ طالب علمی ہی میں علامہ اقبال کی شاعری سے روشناس ہوئے جس کا رنگ ان کی تقریر و تحریر میں نظر آتا ہے علامہ اقبال کے متعلق ان کی کتاب ’’روح دین کا شناسا‘‘ دو جلدوں میں علمی حلقوں میں سید صاحب کی یاد تازہ رکھے گی۔ سید ابولااعلیٰ مودودیؒ سے ملاقات رہی مولانا کی تصانیف کا مطالعہ کیا تو زندگی کا رخ متعین ہو گیا اس کے بعد 1953 میں تحریکی سفر کا آغا ز کیا اور جماعت اسلامی کی رکنیت حاصل کی۔ گورنمنٹ اسکول میں ملازمت اختیار کی مگر پھر یہاں سے استعفا دے دیا اور اس وقت کے امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر سعد الدین صاحب نے ان سے تحریک کے لیے کل وقتی کام کا مطالبہ کیا دین کے اس سپاہی نے اپنے امیر کی اطاعت کی اور اپنے آپ کو پیش کردیا اور اس کے نتیجے میں آنے والی مالی مشکلات کو بڑے صبر سے برداشت کیا۔ سید صاحب قیم جماعت اسلامی کی حیثیت سے تحریکی ذمے داری ادا کرتے رہے اور قائم مقام امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر بھی رہے۔آپ صرف جماعت اسلامی کے حلقے میں ہر دل عزیز نہیں تھے بلکہ آپ اہل کشمیر کی آواز تھے۔ 1972، 1977اور 1987 میں جماعت اسلامی کے انتخابی حلقے سوپور سے بھاری اکثریت سے رکن کشمیر اسمبلی منتخب ہوتے تھے۔ اور ببانگ دہل اہل کشمیر پر ہونے والے ہندوستانی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے اور الحاق پاکستان کا اظہار بھی کرتے۔ آپ نے 1987 میں بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاجی طور پرکشمیر اسمبلی سے استعفا دے دیا۔
کشمیر پر بھارتی مظالم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے 2004 میں جماعت اسلامی کی قیادت کی اجازت سے انہوں نے ایک جہادی تنظیم قائم کی جس کا نام تحریک حریت کشمیر ہے تاحیات سید علی گیلانی صاحب نے اسی تنظیم کے تحت آزادی کشمیر اور الحاق پاکستان کا مقدمہ لڑا۔ سید علی گیلانی کی زندگی کا ہر گوشہ ایک سچے پاکستانی کے لیے مثل مینارۂ نور ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارا آج کا حکمراں طبقہ اور ماضی کا حکمراں طبقہ کس کی نسبت سے کس کی محبت سے اور کس کے تعلق سے بھارت سے گلے ملنے اور دوستی کی پینگیں بڑھانے کا آرزو مند ہے۔