۔7 ستمبر 1974ء-2021ء

305

 

فتنہ انکار ختم نبوت کے استیصال کے لیے سیدنا حبیب ابن زید انصاری رضی اللہ عنہ کی پہلی شہادت سے لے کر شہداء جنگ یمامہ، شہداء 1953، شہداء 1974، شہداء 1984 اور دور حاضرتک یہ تسلسل جاری ہے۔ مجلس احرار اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ برصغیر میں مرزا غلام قادیانی کی امت مرتدہ کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے اجتماعی سطح پر سب سے پہلے محاذ قائم کیا۔ 21 تا 23 اکتوبر 1934 کو قادیان (ہندوستان) میں داخل ہو کر پہلی احرار تبلیغ کانفرنس منعقد کی۔ تب پوری مسلم قیادت احرار کی پشت پر کھڑی تھی۔ تاآنکہ پاکستان بن گیا اور موسیو ظفر اللہ خان کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بنایا گیا جس نے بانی پاکستان مرحوم کا جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کردیا۔
بیرون ممالک سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈے بنا دیا گیا اور قادیانی پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارنے کی تیاریاں کرنے لگے۔ آنجہانی مرزا بشیر الدین محمود نے 1952کو احمدیت (قادیانیت) کا سال قرار دیا تو بانیٔ احرار حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے 1953 کو تحریک ختم نبوت کا سال قرار دیا۔
٭قادیانیو ں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے
٭کلیدی عہدوں سے قادیانیوں ہٹایا جائے
٭ظفر اللہ خان سے وزارت خارجہ کا قلم دان واپس لیا جائے
٭ ربوہ (چناب نگر) کو کھلا شہر قرار دیا جائے
یہ چار مطالبات حضرت مولانا ابوالحسنا ت احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت اور احرار کی میزبانی میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے مسلم لیگی حکمرانوں کو پیش کیے۔ مطالبات کو یہ کہہ کر مستر دکر دیا گیا کہ ایسا کرنے سے ’’امریکہ ہماری گندم بند کردے گا‘‘۔ راست اقدام کا فیصلہ ہوا۔ تحریک چلی اور کراچی، لاہور، ملتان، گوجرانوالہ، راولپنڈی، فیصل آباد، ساہیوال اور دیگر شہروں میں دس ہزار فرزندان اسلام کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ پانچ چھے مارچ کو سب سے زیاد ہ گولی چلی۔ لاہور میں مال روڈ کو لالہ زار کردیا گیا۔ لاشوں کو چھانگا مانگا میں جلایا گیا اور راوی میں بہایا گیا۔ یہ سب کچھ کلمۂ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت میں کیا گیااور اس پر شادیانے بھی بجائے گئے۔ احرار کو خلاف قانون قرار د ے کر دفاتر سِیل، ریکارڈ ضبط اور رہنما پابند سلاسل کردیے گئے۔
حضرت امیر شریعت نے فرمایا تھا کہ ’’یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا ضرور رنگ لا کر رہے گا۔ میںزندہ رہا تو خود دیکھ لوں گا ورنہ میری قبر پر آکر بتا دینا‘‘۔ بالآخر 29مئی 1974ء کو قادیانی غنڈہ گردی اور ربوہ ریلوے اسٹیشن پر مسلم طلبہ پر حملے نے تحریک کا رخ اختیار کیا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت قائم ہوئی۔ تمام مکاتب فکر کی مشترکہ جدوجہد اور شہدائے ختم نبوت و احرار کی قربانیاں رنگ لائیں اور تیرہ دن کی بحث کے بعد 7ستمبر 1974 ء کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو آئین کی رو سے ملک کی ساتویں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
7 ستمبر کو یوم ختم نبوت کے طور پر منانے کا سلسلہ ہم فقیروں نے محدود پیمانے پر شروع کیا جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج پورے ملک بلکہ بیرون ممالک بھی منایا جاتا ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے امسال 7 ستمبر کو بڑے پیمانے پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ نے پہلے کی طرح 7 ستمبرمنگل کو چناب نگر میں انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس کا اہتمام کر رکھا ہے۔ مجلس احرار اسلام حسب سابق عشرۂ ختم نبوت منائے گی اور ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام ہوگا مرکز ی دفتراحرار لاہور میں 5 ستمبر اتوارکو کل جماعتی ختم نبوت کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں نے تحریک ختم نبوت اور تاریخ ختم نبوت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ مقررین نے کہا کہ موجودہ دورے حکومت میں عاشقان مصطفیﷺ کو ستایا جارہا ہے اور گستاخان رسول اللہﷺ کو بچایا جا رہا ہے ، آسیہ مسیح اورربوہ کا عبدالشکور چشمے والے کی مثال دنیا کے سامنے ہے پھرایسے حالات میں جبکہ حکمران ایک طرف ریاست مدینہ کے قیام کا دعویٰ کر رہے ہیں دوسری طرف جون 2021میں مشہور زمانہ قادیانی اور برطانوی وزیر مملکت لارڈ طارق احمد نے پاکستان کا دورہ کیا اور یہاں اس کو سرکاری پروٹوکول سے نوازا گیا وزیر اعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے علاوہ دیگر اعلی سطحی سرکاری عہدے داروں سے اس نے ملاقاتیں کی اور تبادلہ خیال کیا۔ یاد رہے کہ لارڈ طارق احمد لندن میں بیٹھ کر اسلام اور وطن دشمنی کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔اور پھر یہیں پر بس نہیں قرارداد پاکستان کے محرک ہونے کا سہرا غدار پاکستان موسیو ظفر اللہ خان سابق وزیر خارجہ کے سر باندھنے کی خطرناک سازش ہو رہی ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے 4 اگست 2021ء کو اپنے فیس بک اور ٹویٹر کے آفیشل اکاؤنٹ پر 14اگست کے حوالے سے ایک اشتہار دیا گیا ہے جس میں موسیو ظفر اللہ خان کو نہ صرف خراج عقیدت پیش کیا گیا بلکہ قرار داد پاکستان کا محرک بھی قرار دیا گیا۔ جو نہ صرف تاریخی اعتبار سے غلط ہے بلکہ اسلامیان پاکستان کے ایمان و عقیدے پر بھی حملہ ہے۔ اس قسم کی صورت حال کے پیش نظر امسال 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت پہلے سے زیادہ اہتمام سے منانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ان سطور کے ذریعے مجلس احرار اسلام کی جملہ ماتحت شاخوں اور اس کے ذیلی شعبہ جات کے ذمہ داران کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ یوم ختم نبوت کے حوالے سے 7ستمبر کو اہتمام کے ساتھ تقریبات منعقد کریں اور اپنی قدیمی روایت کے مطابق تمام مکاتب فکر کو مدعو کیا جائے تاکہ ہم ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کا احسن طریقے سے دفاع کرسکیں اور اسلام و ملک کے دشمن ناکام و نامراد ہوں
آمین یارب العالمین ۔