۔1857 ء کی جنگ ِ آزادی میں مسلمانوں کے ’’جذبہ جہاد ‘‘کے تجزیے کے لئے بر طانوی تھنک ٹینکس بیٹھے اور ’’ہندوستان میں برطانوی سلطنت کا وُرود‘‘ (The arrival of British Empire in India ) کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی گئی جو انڈیا آفس لائبریری ) لندن(میں آج بھی موجود ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے !
’’ ملک ) ہندوستان ( کی آبادی کی اکثر یت اپنے پیروں یعنی روحانی پیشوائوں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے ۔اگر اس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کا میاب ہو جائیں جو اس بات کے لئے تیار ہو کہ اپنے لئے ’’ظلی نبی ‘‘(Apostolic Prophet) ہونے کا اعلان کردے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہو جائے گی لیکن اس مقصد کو سر کاری سر پرستی میں پروان چڑھا یا جا سکتاہے ۔ہم نے پہلے بھی غداروں ہی کی مدد سے ہندستانی حکومتوں کو محکوم بنایا ۔ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے ملک میں داخلی بے چینی پیدا ہو سکے ۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی کوکھڑا کرکے ہندوستان میں مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سامراجی استعمار کوجو کچھ مطلوب تھا وہی کام لیا گیا لیکن ہندوستان کے تمام دینی طبقات نے مرزا غلا م احمد قادیانی کی تعلیمات اور تصنیفات کا بغور جائزہ لے کر اس کے حقیقی کفرکی حقیقت سے دنیا کو آگاہ کر دیا ۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر پر سب سے پہلا فتویٰ کفر علمائے لدھیانہ نے دیا تمام مکاتب فکر کی رائے اور فتویٰ ایک تھا ،ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم اور مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے اپنی بہترین صلاحیتوں سے منکرین ِ ختم ِنبوت کے عقائد کو بے نقاب کیا 21 تا 23 اکتوبر 1934 ء کو قادیان میں پہلی احرار تبلیغ کانفرنس کا انعقاد اور اس میں ہندوستان کی چوٹی کی مذہبی قیادت کی شرکت مجلس احرار ِاسلام کے شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم ِنبوت کا وہ جرأت مندانہ تاریخی اقدام تھا جس نے پوری دنیا کے سامنے قادیانیت کو بے نقاب کردیا اور خود برٹش ایمپائر پریہ واضح ہوگیا کہ یہ کام اِتنا آسان نہیں ہے کہ اقتدار اور دولت کے زور پر جھوٹی نبوت کو اسلام کے نام پر متعارف کر ایا جاسکے !
پاکستان بننے لگا تو قادیانیوں نے بائونڈری کمیشن میں ضلع گورداسپور کو شامل نہ کرنے کی سازش کی تکمیل کے لئے ہر حربہ اختیار کیا تاکہ پاکستان کے لئے کشمیر جانے کا راستہ باقی نہ رہے ،1949 ء میں پاکستانی فوج نے پونچھ پر قبضہ کرکے سری نگر کی طرف پیش قدمی کرنے کی پوری تیاری کرلی تھی پاکستان کا نصف توپ خانہ پونچھ کے قریب جنگل میں موجود تھا بھارتی وزیر اعظم نے بر طانوی وزیر اعظم سے مدد طلب کی توقادیانی وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خاں نے بر طانیہ کی مدد کرتے ہوئے لیاقت علی خاں کو حملہ روکنے پر راضی کر لیا جس سے دفاعی حلقے سخت پریشان ہوگئے حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمتہ اللہ علیہ نے قادیانی عقائد وعزائم سے لیاقت علی خاںکی حکومت کو آگاہ کیا ۔
پاکستان بننے کے بعد فتنہ مرزائیہ نے یہاں اپنے پنجے گاڑھنے کی کوشش کی بلکہ مرزا محمود کو خواب میں بھی بشارتیں مل چکی تھیں کہ صوبہ بلوچستان عنقریب مرزائی اسٹیٹ ہوگا اسی لیے ’’بائیس جولائی ۱۹۴۸ء کو وہ ایک سیاسی مقصد کی تکمیل کے لیے بلوچستان گئے جہاں ایک خفیہ آزاد بلوچستان کی تحریک چل رہی تھی جس کو برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی انہوں نے بلوچستان کو ایک قادیانی صوبہ بنانے کا اعلان کیا تاکہ اسے بیس بنا کر پاکستان کے دوسرے علاقوں میں سرایت کیا جائے ‘‘۔ (تحریک احمد یت ،یہودی وسامراجی گٹھ جوڑ: 539 )
مرزا محمود کی تقریر جو کہ بلوچستان کو ایک احمدی
اسٹیٹ بنانےسے متعلق تھی جسے ’’الفضل،لاہور،بابت 13اگست1948 ء میں شائع ہوئی اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے اور آج کے بلوچستان خصوصاً پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے تناظر میں بھی دیکھ لیجیے :
’’برٹش بلوچستان ،جواب پاکی بلوچستان ہے کی کل آبادی پانچ یا چھ لاکھ ہے یہ آبادی اگرچہ دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے مگر بوجہ ایک یونٹ ہونے کی اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے دنیا میں جیسے افراد کی قیمت ہوتی ہے یونٹ کی بھی قیمت ہوتی ہے مثال کے طور پر امریکہ کا کانسٹی ٹیوشن ہے وہاں اسٹیٹس سینٹ کے لیے اپنے ممبر منتخب کرتے ہیں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی اسٹیٹ کی آبادی دس کروڑ ہے یا ایک کروڑ ہے، سب اسٹیٹس کی طرف سے برابر ممبر لیے جاتے ہیں غرض پاکی بلوچستان کی آبادی پانچ چھ لاکھ ہے اور اگر ریاستی بلوچستان کو ملا لیا جائے تو اس کی آبادی دس لاکھ ہے لیکن چونکہ یہ ایک یونٹ ہے اس لیے اسے بہت بڑی اہمیت حاصل ہے زیادہ آبادی کو تو احمدی بنانا مشکل ہے لیکن تھوڑے آدمیوں کو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں ،پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلد ی احمدی بنایا جاسکتا ہے ۔۔۔یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری (Base) مضبوط نہ ہو پہلے بیس مضبوط ہو تو پھر تبلیغ بھی پھیلتی ہے بس پہلے (Base) مضبوط کرلو ،کسی نہ کسی جگہ اپنی (Base) بنا لو ،کسی ملک میں ہی بنا لو ۔۔۔اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنالیں تو کم ازکم ایک صوبہ تو ایسا ہوجائے گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے اور یہ بڑی آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے ‘‘۔(تحریک احمد یت ،یہودی وسامراجی گٹھ جوڑ:543)
اِس حوالے سے انتہائی گھمبیر اور خطرناک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے مجلس احرار ِاسلام نے مشائخ وعلماء کرام وزعماء جماعت اسلامی دیو بندی بریلوی اہلحدیث اور شیعہ مکاتب ِ فکر کو کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم ِنبوت کے پلیٹ فارم پر یکجا کر کے حکومت کو اپنے مطالبات پیش کئے ،-1لاہوری و قادیانی مرزا ئیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے -2 کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایا جائے اور چودھری ظفر اللہ خاں سے وزارت ِ خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے۔ حکومت نے مطالبات منظور کرنے کی بجائے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور تحریک تحفظ ختم ِنبوت کو کچلنے کے لئے ریاستی تشدد کی انتہا کردی قادیانی تنظیم فرقان بٹا لین نے فوجیوں کی وردی پہن کر عاشقان ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر گولیاں چلائیں کراچی ، لاہور ،کوئٹہ ،ملتان ،ساہیوال ،فیصل آباد ،گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میںہزاروں فرزندانِ توحید کے خون سے ہاتھ رنگے گئے مال روڈ لاہور پر لاشوں کے ڈھیر لگ گئے جزوی مارشل لاء کا جبر پاکستان میں سب سے پہلے تحریک تحفظ ِختم ِنبوت پر آزمایا گیا ،سید ابو الاعلیٰ مودودی کے خلاف مارشل لاء کے ضابطہ نمبر8 اور تعزیرات کی دفعہ 153 ۔ الف کے تحت مقدمہ چلایا گیا ۔جرم یہ تھا کہ انہوں نے قادیانی نامی پمفلٹ لکھا تھا،اس پر مولانا کو سزائے موت سنا ئی گئی لیکن حکمران سزائے موت دینے کا حوصلہ نہ کر سکے،شورش کاشمیری مرحوم لکھتے ہیں کہ اگر اس وقت کے سیاسی حکمران مارشل لاء کی مشق نہ کرتے تو ملک اس حال کو نہ پہنچتا جس حال کو بعد میں پہنچا اور نہ جمہوری سیاست ہی اس طرح پامال ہوتی۔ (تحریک ختم نبوت طبع اول صفحہ نمبر149 )
یہ سب کچھ شریعت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت میں حاجی نماز ی حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہوا۔ تب حضرت امیر شریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اس تحریک کے ذریعے میں ایک ٹائم بم نصب کر رہا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا ۔تحریک مقدس تحفظ ِ ختم ِنبوت کی پاداش میں مجلس احرار ِاسلام کو خلاف ِ قانون قرار دے دیا گیا اور دفاتر سیل کر دئیے گئے ۔زُعما ئے ختم ِنبوت اور احرار رہنما اس راستے میں سب کچھ سہہ گئے مگر اپنے کئے پر کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا معا فیاں نہیں مانگیں ،تحریک سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی ،جسٹس منیر کی عدالت میں اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے ،حکمت، دانائی اور حیلے کے ساتھ تحفظ ختم ِنبوت کے کام کو جاری وساری رکھنے کے لئے 1954 ء میں مجلس تحفظ ِختم ِنبوت کا مبارک قیام عمل میں لایا گیا 1958 ء میں احرار سے پابندی اٹھی تو حضرت امیر شریعت مرحوم نے ملتان میں سرخ قمیض پہن کر اور جماعت کا بیج سجا کر پرچم کشائی کرکے جماعت کی بحالی کا باضابطہ اعلان فرمایا ،احرار وختم ِنبوت کا یہ قافلہ سخت جاںرواں دواں رھا کہ -29 مئی 1974 ء کو اسلامی جمعیت طلباء اور نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء اپنے سیاحتی سفر سے واپس آرہے تھے کہ ربوہ اسٹیشن پر مرزائی غنڈوں نے ٹرین کی اس بوگی پر حملہ کردیا جس پر طلباسوار تھے لہولہان طلباکی ٹرین فیصل آباد ریلوئے اسٹیشن پہنچی تو مجلس تحفظ ختم ِنبوت کے رہنما حضرت مولانا تاج محمود کے علاوہ مولانا محمد ضیاء القاسمی اور دیگر زعماء نے طلباکی دلجوئی کی مولانا تاج محمود نے طلباسے مخاطب ہوکر فرمایا ! میرے عزیز طلباتمہارے خون کے ایک ایک قطرے کا مرزا ئیوں سے حساب لیا جائے گا چنانچہ مجلس تحفظ ختم ِنبوت کے امیر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمتہ اللہ علیہ کی امارت اور مولانا مفتی محمود ،مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا عبید اللہ انور ، مولانا عبدالستار نیازی ،حکیم عبدالرحیم اشرف ،نواب زادہ نصر اللہ خاں ،سید ابومعاویہ ابو ذر بخاری ،پروفیسر عبدالغفور احمد ،حضرت مولانا خواجہ خان محمد ،مولانا محمد شریف ،سید محمود احمد رضوی ،آغا شورش کاشمیری ، سید مظفر علی شمسی ،مولانا عبدالقادر روپڑی ،مو لانا عبیدا للہ احرار ، چودھری ثناء اللہ بھٹہ ،علامہ احسان الہٰی ظہیر ،سید عطاء المحسن بخاری ،سیدعطاء المومن بخاری ،سیدعطاء المہیمن بخاری ،مولانا زاہدالراشدی ،قاری عبدالحیٔ عابداور دیگر حضرات ومشائخ کی قیادت میں تحریک تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی گئی ،ملک بھر میں احتجاج اور مظاہرے زور پکڑ گئے متعدد مقامات پر گرفتاریوں اور ریاستی تشدد کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ بڑھتا گیا ہفت روزہ ’’چٹان ‘‘ اور مجلس احرار ِاسلام نے قادیانیوں کے سوشل بائیکاٹ کی مہم تیز کردی ۔پنجاب اسمبلی میں حزب ِ اختلاف کے ارکان نے سانحۂ ربوہ کے حوالے سے مطالبہ کیا کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دیا جائے انہیں کلیدی عہدوں سے الگ کیا جائے اور ربوہ ریلوے اسٹیشن کے سانحہ کی تحقیقات اعلیٰ سطح پر ہو مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے اس بحث میں چودہ ارکان نے حصہ لیا اور علامہ رحمت اللہ ارشدقائد حزب ِ اختلاف نے قادیانیت کا حقیقی تجزیہ کیا یکم جون کو مسٹر جسٹس کے ایم صمدانی نے سانحۂ ربوہ کے دائرہ کار کا اعلان کیا مسٹر محمدحنیف رامے نے ایک بیان میں کہا کہ تحقیقا تی رپورٹ کے مطابق سانحۂ ربوہ کے کسی مجرم کو معاف نہیں کیا جائے گا جبکہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے عوام سے اپیل کی کہ وہ تحقیقاتی رپوٹ کا انتظار کریں ، چودھری ظہور الہٰی نے سانحۂ ربوہ پر قومی اسمبلی میں تحریک التوا پیش کی احتجاج ملک کے طول وعرض حتیٰ کہ دیہا ت تک پھیل گیا 14 جون کو مجلس عمل کے مطالبات کے حق میں مثالی ہڑتال ہوئی -23 جون کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ حکومت قادیانی مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاھتی ہے -28 جون کو جامعہ الازہر مصرنے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا فتویٰ جاری کیا ۔تحریک کے دوران آغا شورش کاشمیری اور سید عطا ء المحسن بخاری کو گرفتار کر لیا گیا 21 اگست کو صمدانی ٹر یبونل نے اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کردی -25 اگست تک مرزا ناصر احمد پر قومی اسمبلی میں 11 دن کی بحث مکمل ہوگئی، جمعیت علماء اسلام ) ہزاروی گروپ ( کے سر براہ بطل ِ حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم نے قومی اسمبلی میں الگ سے محضر نامہ پیش کیا ۔
کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام یکم ستمبر کو بادشاہی مسجد لاہور میں فقیدالمثال اجتماع منعقد ہوا ،جس نے صورتحال کو فیصلہ کنُ مرحلہ میں داخل کردیا، -7 ستمبر کو 4 بجکر 35 منٹ پر لاہوری وقادیانی مرزا ئیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قائد ایوان کی حیثیت سے 27 منٹ تک تقریر کی بعد ازاں سینٹ نے تو ثیق کی وزیر اعظم بھٹو نے اپنی تقریر میں کہا کہ منکرین ِ ختم ِنبوت کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ پوری قوم کی خواہشات کا آئینہ دار ہے اس مسئلہ کو دبانے کے لئے 1953 ء میں ظالمانہ طور پر طاقت استعمال کی گئی،
1984ء میں کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم ِنبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم سے حضرت مولانا خواجہ خان محمد مرحوم کی قیادت میں تحریک چلی اور صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روکنے کے لئے -26 اپریل 1984 ء کو امتناع قادیانیت آر ڈنینس جاری کیا جو بعد میں تعزیرات ِ پاکستان کا حصہ بنا۔ اب چنا ب نگر ) ربوہ( میں مجلس احرار ِاسلام کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم ِنبوت ،انٹر نیشنل ختم ِنبوت موومنٹ کے مراکز اور دیگر ادارے کام کررہے ہیں جبکہ متحدہ تحریک ختم ِنبوت رابطہ کمیٹی کے نام سے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی تقریباََ تیرہ سال سے متحرک ہے ۔قادیانی اسمبلی کی آئینی قرار دا دِ اقلیت اور قانون تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکاری ہیں ملکی وبین الاقوامی سطح پر قوانین کے خلاف مسلسل لابنگ کررہے ہیں بعض سر کاری وزراء اور قادیانی جماعت مل کر ہیومن رائٹس کمیشن ،انسانی حقوق کے ادارے اور غیر ملکی ایجنڈے اور بیرونی سرمائے پر چلنے والی این جی آوز بچے کھچے اسلامی تشخص کو ختم کرانے کے لئے پوری قوت سے سرگرم عمل ہیںاقتدار کے ایوانوںکی بالکو نیوں اور بیوروکریسی کے ارد گرد قادیانی براجمان ہیں ،نواز شریف نے قادیانیوں کو بھائی قرار دیا تھا الطاف حسین قادیانیوں کومسلمانوں کی صفوں میں لاکھڑا کرنے کے لئے بے تاب نظر آتے رہے ۔تحریک انصاف قانون توہین رسالت کے خلاف مہم کا سدباب کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ، نوازشریف نے ممتاز قادری کو پھانسی دی اور ختم نبوت والے حلف نامے کو حذف کروایا اورشہباز شریف نے قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کو نو جوانوں کا آئید یل قرار دیا، آج وہ خود مکافات عمل کا شکار ہیں،پیپلز پارٹی بھٹو مرحوم کی سیاسی کمائی تو کھا رہی ہے ،لیکن تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے بھٹو مرحوم کے تاریخی کردار سے اغماض برت رہی ہے۔ صورتحال کی تفہیم کے لئے ہم پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا وہ قو ل نقل کر تے ہیں بھٹو مرحوم جب اپنی زندگی کے آخری ایام اسیری اڈیالہ جیل میں گزار رہے تھے تو انہوں نے ڈیوٹی آفیسر کرنل رفیع الدین سے کہا تھا کہ ’’احمدیہ مسئلہ ! یہ ایک مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا ۔ایک دفعہ کہنے لگے : رفیع ! یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہو دیوں کو امریکہ میں حاصل ہے ۔یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ایک بار انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے ۔اس میں میرا قصور ہے ؟ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع الدین ! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میر ی موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کو ٹھری میں پڑا ہوں؟ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھٔی اگران کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہرا تے ہیں تو کوئی بات نہیں ۔پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گنا ہوں کی تلافی کر جائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔بھٹو صاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگا یا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔ ) ’’بھٹو کے آخری 323 دن ‘‘از کرنل رفیع الدین(،کچھ عرصہ پہلے قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو اقلیتی سیٹ پر بٹھانے کا حکومتی فیصلہ سامنے آیا تو دینی جماعتوں نے اس پر سخت مؤقف اختیار کیا کہ جب قادیانی اپنی اقلیتی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر ان کو اقلیتی سیٹ پر کیسے بٹھایا جا سکتا ہے ، چنانچے یہ فیصلہ حکومت کو واپس لینا پڑا ، صو بائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ ’’خاتم النبین‘‘ لکھنے پڑھنے اور بولنے کو لازمی قرار دینے کے لیے قرار دادیں منظور ہوئیں،پھر وزارت مذہبی امور نے آقاء دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے ساتھ خاتم النبین لازمی لکھنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا جو دراصل 1974 ء کی قرار داد اقلیت اور 1984 ء امتناع قادیانیت ایکٹ کا ہی تسلسل ہے ،ء برطانوی پارلیمنٹ کے دونوں ہائوسز کے تقریباََ 40 ارکان پر مشتمل آل پارٹیز پارلیمنٹری گروپ فار دی احمدیہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے پاکستان کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی انتہائی خطرناک رپورٹ جاری کی گئی ہے ، 167 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ اس جھوٹ کا پلندہ ہے جو قادیانی لابنگ کے نتیجے میں پاکستان کے خلاف ایک خطرناک دستاویز ہے ،جس کا حکومت اور خصوصاََ وزارت خارجہ کو نوٹس لینا چاہیے اور لندن میں موجود پاکستانی سفارت خانے کو اپنی کارکردگی کے متعلق اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ کئی بین الاقوامی سفارتکار اور وفود قادیانی مفادات کے دفاع کے لیے پاکستان کے خطرناک دورے کر چکے ہیں اوراسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے بیک ڈور ڈپلو میسی تیارکی جا چکی ہے۔ قرار داد پاکستان کے محرک کا سہرا غدار پاکستان موسیو ظفراللہ خان سابق وزیر خارجہ کے سر باندھنے کی خطرناک سازش ہو چکی ہے حکومت پاکستان کے 4اگست 2021کو اپنے فیس بک اورٹوئٹر کے آفیشیل اکاؤنٹ پر 14اگست کے حوالے سے ایک اشتہار دیا ہے جس میںموسیو ظفراللہ خان کو نہ صرف خراج عقیدت پیش کیاگیا بلکہ قرارداد پاکستان کا محرک بھی قرار دیا گیا جو تحریکی اعتبار سے نہ صرف غلط ہے بلکہ اسلامیان پاکستان کے عقیدے پر بھی حملہ ہے اس قسم کی صورتحال کے پیش نظر امسال 7ستمبر 2021کو یوم تحفظ ختم نبوت زیادہ اہتمام سے منایا جا رہا ہے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں بڑی کانفرنسز کا جو اعلان کیا ہے وہ انتہائی خوش آئند ہے