دو سو بندوں کی ٹیم

726

یہ ٹھیک ہے کہ وطنِ عز یز روز ِ اول سے قرضوں کے سہارے پہ چلتا آ رہا ہے۔ اور درست ہے کہ پچھلے حکمران قرضہ لیتے تھے، تاہم موجودہ وزیرِاعظم عمران خان نے آکر بتایا کہ میں قوم کو پیروں پر کھڑا کروں گا مجھے شرم آئے گی کہ میں کسی ملک کے آگے ہاتھ پھیلاؤں، قرضہ لینے سے بہتر ہے کہ خودکشی کر لوں۔ پاکستان میں قرض لینے کی ابتدا جنرل ایوب سے ہوئی جس کے مطابق 1970 میں پاکستان پر مجموعی قرض 30ارب روپے تھا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو دور حکومت کے خاتمے پر 1977 میں مجموعی قرض 97 ارب ہو گیا۔ 1988 میں سابق فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے اقتدار سے خاتمے کے وقت ملک کا مجموعی قرض 523 ارب تک پہنچ گیا۔ گویا ان کے دور میں قرضوں میں 426 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں اور جب اگست 1990 میں ان کی حکومت برطرف ہوئی تو اس وقت ملک کا مجموعی قرض 711 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ ان کے دور میں قرض میں 188 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ میاں نواز شریف برسراقتدار آئے اور جب ان کی حکومت جولائی 1993 میں ختم ہوئی تو اس وقت مجموعی قرض 1135 ارب یعنی ایک اعشاریہ ایک ٹریلین روپے ہو گیا۔ گویا ان کے دور میں قرض میں 422 ارب کا اضافہ ہوا تھا۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی حکومت نومبر 1996 میں ختم ہوئی تو ملک کا مجموعی قرض 1704 ارب روپے یعنی ایک اعشاریہ سات ٹریلین ہو چکا تھا جس کا مطلب ہے ان کے اس دور میں ملک کا قرض 569 ارب روپے بڑھا تھا۔ 1996 میں نواز شریف کا دوسرا دور حکومت شروع ہوا اور جب اکتوبر 1999 میں مارشل لا کے نفاذ کے ذریعے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کی تو ملک کا مجموعی قرض 2946 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ گویا نوازشریف کے دوسرے دور اقتدار میں قرض میں 1242 ارب روپے یعنی ایک ٹریلین سے بھی زائد کا خطیر اضافہ ہوا تھا۔ صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں قرضہ چھ ٹریلین تک پہنچ گیا تھا۔ اس کے بعد مشرف نے بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی اور جب اقتدار کا سورج 2008 میں غروب ہوا تو پاکستان کا قرض 6127 ارب یا چھ ٹریلین تک پہنچ چکا تھا گویا ان کے عروج کے دنوں میں پاکستان پر 3181 ارب یا تین ٹریلین روپے کا مزید قرض کا بوجھ پڑا۔ جنرل مشرف اور مسلم لیگ ق کی حکومت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا دور حکومت شروع ہوا جس کا خاتمہ 2013 میں ہوا تو ملک کا قرض 14.2 ٹریلین روپے ہو چکا تھا جس کا مطلب ہے اس دور میں قرض میں آٹھ ٹریلین سے زائد کا اضافہ ہوا۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت 2013 سے 2018 تک قائم رہی اور اس دوران ملک کا قرض 14.2 سے 24.9 ٹریلین تک پہنچ گیا جس کا مطلب ہے اس دور میں 10 ٹریلین سے زائد کا قرض لیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں جو قرضہ لیا گیا دونوں جماعتیں اپنے لیے گئے قرضے کے بارے میں بتاتے ہیں کہاں کہاں خرچ کیا اور کیا ڈویلپمنٹ ہوئی۔ پھر 2018 میں عمران خان کی حکومت آگئی اور اس نے پچھلی ساری حکومتوں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ پی ٹی آئی کے موجودہ دور میں اب تک 14 ٹریلین روپے سے زائد کا قرض لیا جا چکا ہے جو اب تک کی پاکستانی تاریخ میں کسی ایک دور حکومت میں لیا جانے والا سب سے زیادہ قرضہ ہے۔ ابھی تو عمران خان کی حکومت کو دو سال باقی ہیں اور یہ بات پتا نہیں کہاں پر جاکے رکے گی کیونکہ حکومت روز کی بنیاد پر 16 ارب قرضہ لے رہی ہے۔
ماہر تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان کی تبدیلی جھوٹی نکلی سارے وعدے جھوٹے نکلے، قوم کو پیروں پر تو کیا کھڑا کرنا تھا عمران خان نے بے روزگار کر دیا۔ عوام کو صحت و تعلیم اور ضروریات زندگی کی اشیاء سستی ملنی تھی سب مہنگی کردی۔ جہاں سے بھی قرضہ ملا عمران خان نے لیا۔ نہ کوئی پروجیکٹ، نہ کوئی عوامی فلاحی منصوبہ، نہ عوام کو ریلیف پھر بھی عمران خان نے قرضہ لینے کے تاریخی ریکارڈ توڑ دیے اب یہ پیسے جا کہاں رہے ہیں، عمران خان اور نہ ان کا کوئی وزیر مشیر بتانے کو تیار ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق غیرملکی قرضوں کا حجم 122 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور اقتدار میں ملک کا مجموعی بیرونی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق حکومت نے قرض تو واپس کیا ہے لیکن اس بیرونی قرض کو اتارنے کے لیے اس نے نیا قرض لے کر ملک پر قرضوں کا مزید بوجھ ڈال دیا۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ اپنی زبان کا پکا وزیرِ اعظم عمران خان اپنے وعدے کے مطابق خودکشی کیوں نہیں کرتا؟
تحریک انصاف نے ملک میں سیاسی تبدیلی کی بات کی تھی۔ عوام کے حالت زار میں بہتری کا خواب دکھایا تھا۔ معاشی استحکام ایک عزم تھا۔ سب سے اہم بات ہے کہ کرپشن کی بات کی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کرپشن کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ حکومت دعوے اور وعدے کے برعکس کام کرتی نظر آتی ہے،70 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ نوجوانوں کی توقعات مایوسیوں میں بدلی ہیں۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے، پاکستان میں کرپشن، مہنگائی اور غربت کی آگ ہے، عمران خان کی حکومت اور ان کے وزیروں مشیروں نے اس آگ پر تیل چھڑک کر عوام کو جلنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ عمران خان نے دو سو بندوں کی ٹیم کا جو کہا تھا بالکل صحیح کہا تھا۔ لیکن ہمارے سمجھنے میں غلطی ہو گئی کہ وہ ماہرین کی ٹیم ہوگی جو ملک کو ترقی دے گی۔ عمران خان کے پاس جن بندوں کی ٹیم تھی وہ چوروں کی فراڈیوں کی کرپٹ لوگوں کی ٹیم تھی۔ جن کو باری باری وزارت ملی تھی۔ مثال کے طور پر جب وزیر صحت عامر کیانی نے جب اپنی جیب بھر لی تو عمران خان نے کہا مجھے عامر کیانی کی بات پر یقین ہے اور ان کو ہٹا کر ظفر مرزا کو لگا دیا گیا جب ظفر مرزا پر کرپشن اور کک بیک کے الزام لگے عمران خان نے کہا مجھے ظفر مرزا کی بات پر یقین ہے اور ان کو ہٹا کر ڈاکٹر فیصل سلطان کو وزیر بنا دیا گیا۔ پٹرولیم میں نے ندیم بابر نے چھ سو ارب کا ٹیکا ملک اور قوم کو لگا دیا تو عمران خان نے کہا مجھے ندیم بابر کی بات پر یقین ہے اور ان کو وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ ٹھگوں کی ٹیم ملک اور قوم کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ عمران خان ہر چند دن بعد جذباتی تقریر کر دیتے ہیں۔ عوام پوچھتے ہیں خان صاحب مہنگائی کب ختم ہوگی۔ روزگار کب ملے گا۔ لیکن عمران خان کے فالور (یوتھیے) ہر تقریر کے بعد کہتے ہیں کیا بات کر دی خان صاحب نے۔ یوتھیوں پر مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، اقربا پروری، پٹرول، ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بجلی اور گیس کے لمبے لمبے بلوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جس طرح ناگ بین پر جھومتا ہے اسی طرح یوتھیے عمران خان کی تقریروں پر جھومتے ہیں۔