قرض دینے سے انکار پر گناہ
سوال: میرے ساتھ ایک کمپنی میں کام کرنے والے کئی ساتھی وقتاً فوقتاً قرض کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وقت پر قرض نہیں لوٹاتے، جب کہ کئی ایک تو واپس کرنا بھول جاتے ہیں۔ بعض ایک ماہ بعد لوٹانے کے وعدے پر قرض لیتے ہیں، لیکن سال گزرنے کے بعد بھی واپس نہیں کرتے۔ مجھے ان سے تقاضا کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔
اگر میرے پاس کچھ رقم ہو اور میں قرض دینے کی استطاعت رکھتا ہوں، اس کے باوجود اس اندیشے سے کہ رقم وقت ِ موعود پر واپس نہیں ملے گی، انکار کردوں تو کیا میں گناہ گار ہوں گا؟
جواب: مال اللہ کی نعمت ہے، ضروریات ِ زندگی کی تکمیل کے لیے قدم قدم پر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’تمھارے وہ مال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے قیام ِ زندگی کا ذریعہ بنایا ہے‘‘۔ (النساء: 5)
اس دنیا میں تما م انسان آزمائش کی حالت میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو مال و دولت سے محروم کرکے آزماتا ہے تو کسی کو عطا کرکے۔ کسی کوکم دے کر آزماتا ہے تو کسی کو خوب نواز کر۔ قرآن مجید میں ہے: ’’آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تْلا دیتا ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے‘‘۔ ( الشوریٰ: 21)
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہو انہیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے جو بندے غریب و محتاج ہوں ان کی مدد کریں اور ان کی ضروریات پوری کریں۔ حدیث میں انسانوں کے کام آنے اور ان کا تعاون کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ اپنے بندے کی مدد کرتا ہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے‘‘۔ ( مسلم)
مدد اور تعاون کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس کا ایک پہلو مالی تعاون ہے۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مالدار شخص اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے غریبوں کو اپنے مال کے ایک حصے کا مالک بنا دے۔ اسے صدقہ و خیرات اور انفاق کہا جاتا ہے۔ اس کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ذمّے قرض سے تعبیر کرتا ہے، جس کا وہ بھرپور بدلہ روزِ قیامت دے گا۔ قرآن مجید میں ہے:’’اور جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ (المعارج: 24-25)
’’مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنھوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے، ان کو یقیناً کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے‘‘۔ ( الحدید: 18)
مالی مدد کی دوسری صورت یہ ہے کہ جس شخص کے پاس مال ہو وہ اسے کسی ضرورت مند کے طلب کرنے پر اس کو دے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اسے ایک مقررہ مدّت کے بعد یا جب اس کے پاس مال آجائے گا، اس کا دیا ہوا مال واپس کردے گا۔ اسے قرض کہتے ہیں۔ حدیث میں قرض دینے کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے صدقے کے مثل قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دو مرتبہ قرض دے اسے ایک مرتبہ صدقہ کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے‘‘۔ ( ابن ماجہ)
جو شخص قرض لے اس کی ذمے داری ہے کہ اس نے جب اسے واپس کرنے کا وعدہ کیا ہو، اس سے قبل ہی یا اس وقت تک واپس کردے۔ اگر اس وقت تک اس کے پاس رقم کا نظم نہ ہو پایا ہو تو قرض دینے والے سے رابطہ کرکے مزید مہلت لے لے۔ یہ بڑی غیر اخلاقی حرکت ہے کہ قرض لے کر خاموش بیٹھ جائے اور اسے واپس کرنے کا خیال دل میں نہ لائے، یا موعود وقت نکل جائے اور وہ قرض کی واپسی سے بالکل بے پروا ہو، یا اس کے پاس رقم تو موجود ہو ، لیکن وہ قرض کی واپسی میں ٹال مٹول سے کام لے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے:’’جو شخص لوگوں سے مال لے اور اس کی نیت اس کی واپسی کی ہو، اللہ اس کی ادائیگی کی توفیق دیتا ہے اور جو شخص ان کا مال لے اور اس کا ارادہ واپس کرنے کا نہ ہو، اللہ اس کو برباد کردیتا ہے‘‘۔ ( بخاری)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے:
’’جس کے پاس رقم ہو، پھر بھی وہ قرض واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے، اس نے زیادتی کی‘‘۔ ( بخاری، مسلم)
بہر حال اگر کسی شخص کے پاس کچھ مال ہو اور وہ اس کی ضروریات سے زیادہ ہو، کوئی دوسرا شخص اس سے قرض مانگے تو عام حالات میں اسے قرض دے کر اس کی مدد کرنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے قرض دینے والا اللہ تعالیٰ کی جانب سے جزا کا مستحق ہوگا۔ لیکن اگر اس کو اندازہ ہو کہ قرض لینے والا بھول جائے گا، یا وقت پر واپس نہیں کرے گا، یا ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے گا تو اسے حق ہے کہ قرض نہ دے۔ اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ البتہ اسے چاہیے کہ جھوٹ نہ بولے، یہ نہ کہے کہ میرے پاس کچھ رقم نہیں ہے، بلکہ کوئی عذر بتاکر خوبصورتی سے معذرت کرلے۔