تحریک انصاف کی تین سالہ کارکردگی

326

آخری حصہ
جمہوری پارلیمانی نظام میں حزب اقتدار کے بعد اگر عوام داد رسی کے لیے کسی کی طرف امید بھری نظر وں سے دیکھتی ہے تو وہ حزب اختلاف اور اس سے جڑی جماعتیں ہیں۔ جن میں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ گزشتہ تین سال میں ان تمام پارٹیوں نے جس بے بصیرتی اور نا اہلی کا ثبوت دیا ہے اس نے ان تمام پارٹیوں اور ان کی قیادت کے تاثر کو بہت ہی برے طریقے سے متاثر کیا ہے، اگر چہ چور دروازے ڈھونڈنا، رات کی تاریکی کا سہارا لینا اور بوٹ پالش کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا ان کے ماتھے کا جھومر ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی تاریخ نہیں ہے بلکہ اب تو بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ ہمارے ایک دوست کالم نویس خورشید ندیم نواز شریف کی تقریر سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے کالم کا عنوان ہی یہ بنا ڈالا کہ ’’تقریر سے پہلے اور تقریر کے بعد کا نواز شریف‘‘ اور انہوں نے فقط ایک ہی کالم پر اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے پوری ایک سیریز لکھ ڈالی کہ کس طرح یہ بیانیہ پاکستان کی تقدیر کو بدل ڈالے گا۔ لیکن کون جانتا تھا کہ یہ سارا پریشر تو فقط ایک اچھی Bargianing کے لیے کیا جارہا تھا اور جب وہ نہ ہوپائی تو ہم نے پرانی تنخواہ پر بغیر سالانہ اضافے کے لیے اپنے کام کو جاری رکھا۔ زرداری صاحب کی سیاست اپنے صوبے کی حکومت کے گرد گھومتی رہی اور سودو زیاں سمیت وہ اس کو لے کر آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اداروں کو یہ باور کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے کہ مائی باپ جس تنخواہ پر آپ موجودہ حکومت کو چلارہے ہیں ہم تو اس سے بہت کم درجے پر بھی کام چلانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن تاحال کہیں سے کوئی گرین سگنل نہیں مل سکا۔ البتہ بات چیت جاری رکھنے پر دونوں پارٹیوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی کارکردگی بحیثیت مجموعی پوری قوم کے سامنے سوالیہ نشان ہے۔ جس طرح پارلیمان کے تقدس کو پامال کیا جاتا رہا وہ اپنی مثال آپ ہے اور ہمارے سیاستدانوں کی بلوغت اور ہمارے سیاسی نظام پرسوالیہ نشان بھی۔ جس طریقے سے اور جو زبان پارلیمان کے اندر استعمال کی جاتی رہی بالخصوص حکومت وقت اور اس کے وزراء کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ وہ تمام حالات ہیں کہ جن میں موجودہ حکومت نے پورے تزک و احتشام کے ساتھ اپنے جھوٹ بولنے کے سفر کو جاری رکھا اور چونکہ اب جھوٹ بولنے میں تین سالہ تجربہ بھی ہے، اسی لیے اب ضمیر بھی ملامت نہیں کرتا کیونکہ ضمیر تو کب کا ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کو گروی رکھا جاچکا ہے۔ البتہ ایک بات جس کی داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا، وہ مسلسل جھوٹ بولنا، تواتر کے ساتھ روزانہ ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپنے لیڈر کے گناہوں کا ملبہ اپنے سر لینا ہمارے سیاسی ورکرز کا وتیرہ بن چکا ہے۔ چاہے وہ شاہد خاقان عباسی ہوں یا اسد عمر، چاہے وہ شاہ محمود قریشی ہو یا میاں جاوید لطیف یعنی جتنا تم اپنے لیڈر کو بڑا ثابت کروگے تو تم اتنے ہی وفادار ثابت ہوگے اور اس وفاداری کا صلہ وقت آنے پر دیا جائے گا۔ رائیگاں نہیں جائے گا۔ کھوکھلا اور گندہ نظام، بد امنی، رشوت کا گرم بازار، حدو ں کو چھوتی ہوئی لاقانونیت کہ جس کے شر سے نہ زینب محفوظ ہے اور نہ ہی فاطمہ، پارلیمان
سے منظور ہوتا ہوا Domestic Violence Bill اور Single National Curriculum ہیں۔ عمران خان کو بطور ریفارمر پیش کرنا اور تحریک انصاف کی حکومت کے پانچ بڑے منصوبوں کے نام لکھیں کے سوال کہ جس کا جواب آج کے بقراطوں کے پاس بھی نہیں ہے ہمارا منہ چڑارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری قوم اور اپوزیشن اس دن کو ’’یو م سیاہ‘‘ کے طور پر مناتی تاکہ ان کے کالے کرتوتوں کو ملک و قوم کے سامنے پیش کیا جاتا وگرنہ اقتدار کے خون کا مزہ ان کے منہ کو لگ چکا ہے اور ابھی سے ان کے منہ سے اگلے اقتدار کے لیے رالیں ٹپک رہی ہیں۔ ہوشیار رہنا، جاگتے رہنا اور جگاتے رہنا اور ہاں آخری بات! حکومتی وزراء کے بیانات سے تو یہ لگ رہا ہے کہ افغانستان کی جنگ اصل میں تحریک انصاف ہی نے لڑی ہے اور ملا عمر کی جگہ یہ سارا کریڈٹ عمران خان کو ہی جاتا ہے حالانکہ اس وقت کی ساری تحریک انصاف مشرف کے ساتھ کھڑی تھی اور ان سب کے ہاتھ اور پائوں افغانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ لیکن آخر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کو طالبان کی فتح پر کیوں چپ لگ گئی؟ کوئی ہے جو پتا کرکے بتاسکے کہ حضور آپ کے ہاں سوگ کیوں طاری ہے؟ اگر ہوسکے تو پتا کرکے بتائیے گا!!!