کابل سے امریکی انخلا

581

امریکا نے طے شدہ ڈیڈلائن سے ایک روز قبل ہی کابل سے اپنا انخلا مکمل کر لیا ہے۔ کابل ائرپورٹ سے محو پرواز ہونے والی آخری امریکی فلائٹ میں سوار ہونے والے آخری امریکی فوجی کوئی اور نہیں بلکہ 18ویں ائر بورن کور کے کمانڈر میجر جنرل کرس ڈونا ہیو تھے جو وہاں سے امریکی ائر فورس کے سی17 کرافٹ پر بوجھل قدموں کے ساتھ سوار ہونے کے بعد روانہ ہو ئے۔ اس آخری فلائٹ کے ساتھ ہی 11 ستمبر کے حملوں کوجواز بنا کر شروع ہونے والی 20 سالہ امریکی مہم جوئی ذلت ورسوائی کی داغ دار تاریخ رقم کرتے ہوئے اختتام پزیر ہو گئی ہے۔ امریکا کی بیرون ملک لڑی جانے والی اس طویل ترین جنگ میں تقریباً 50 ہزار افغان شہری، 2500 امریکی فوجی، 66 ہزار افغان فوجی اور پولیس اہلکار، 457 برطانوی فوجی اور 50 ہزار طالبان و دیگر امریکا مخالف جنگجو ہلاک ہوئے۔ یہ طویل جنگ چار امریکی صدور کے عرصہ ٔ صدارت میں لڑی گئی جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ پر دوکھرب امریکی ڈالرز خرچ ہوئے جو افغان سیکورٹی فورسز پر ہونے والے اخراجات کے علاوہ ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کی شکست خوردگی کے عالم میں انخلا کا ایک اور افسوس ناک پہلو بیس سالہ تباہی وبربادی کے علاوہ امریکی افواج کا انخلا کے وقت بھی افغانوں کو خاک وخون میں لتھاڑ کر جانا ہے جس کی تازہ ترین مثال کابل کے ہوائی اڈے کے قریب ہونے والا بدترین دھماکا ہے جس میں لگ بھگ ڈیڑھ سو بے گناہ افراد جان بحق اور بیسیوں زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ اس دھماکے کی نذر ہونے والے بدقسمت خاندانوں کو دوہرے عذاب سے گزرنا پڑا ہے اولاً دھماکے کی صورت میں ان کے چیتھڑے اڑائے گئے ثانیاً دھماکے کے بعد کئی گھنٹوں تک نہ تو تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لیے کوئی مدد کو آیا اور نہ ہی چیختے چلاتے زخمیوں کی جان بچانے اور انہیں فوری طبی امداد پہنچانے کی کوئی منظم کوشش نظر آئی، زمین کا رز ق بننے والے ان خاک نشینوں کے ساتھ ایک اور المیہ یہ پیش آیاکہ انہیں ریسکیو کرنے اور ان کی آہ وفغاں پر کان دھرنے نہ تو امریکی اور اس کے اتحادیوں نے کابل ائر پورٹ کی محفوظ پناہ گاہ سے باہر آکر متاثرہ افراد کی مدد کرنا گوارہ کی اور نہ ہی طالبان ان کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ نظر آئے رہی سہی کسر کابل کے غیر یقینی حالات، نظام زندگی کے مفلوج ہونے اور سب سے بڑھ کر اسپتالوں اور رفاہی اداروں کی غیر فعالیت اور وہاں سے بے دخل ہونے یا کیے جانے والے طبی عملے کی عدم دستیابی نے پوری کردی۔ حالیہ کابل بم دھماکے کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں ان میں خون میں لت پت زخمیوں کی آہ وبکا، تڑپتے لاشوں کے ڈھیر میں معصوم بچوں اور خواتین کی حالت نے انتہائی سخت جان افراد کے دل بھی پسیج گئے۔
کہنے کو تو اس اندوہناک واقعے کی ذمے داری نہ صرف دولت اسلامیہ خراسان نامی تنظیم نے قبول کی ہے بلکہ امریکا بہادر کے صدر ذی وقار نے دنیا کو ایک بار پھر بے وقوف بناتے ہوئے اگر ایک سانس میں انتہائی غم وغصے اور افسردگی کے انداز میں اس حملے کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دینے اور ان مجرموں سے انتقام لینے کا اعلان کیا ہے تو اگلے ہی لمحے ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا کے مصداق مغربی میڈیا دنیا کو یہ باور کراتے ہوئے بھی پایا گیا کہ اس بم دھماکے کے ماسٹر مائینڈ دولت اسلامیہ کے ایک اہم کمانڈر کو نہ صرف مشرقی افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا ہے بلکہ اسی روز درندگی کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے ائر پورٹ کے قریب داعش کے ایک اور مشتبہ حملہ آور کو نشانہ بنانے کی آڑ میں ایک بار پھر نہتے اور بے گناہ افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا جن میں کئی معصوم اور کمسن بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔
افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی افراتفری اور ذلت آمیز طریقے سے نکلنے پر جہاں اتحادی ممالک بشمول جرمنی اور برطانیہ تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں وہاں خود امریکا کے اندر بھی حکومتی صفوں کے علاوہ اپوزیشن کی جانب سے انخلا کے حوالے سے جو بائیڈن کے عجلت میں کیے جانے والے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں افغانستان سے بے سروسامانی اور کامیاب نتائج کے بغیر انخلا کو امریکی شکست سے تعبیرکرتے ہوئے اسے امریکا کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے بھی امریکی کمانڈر جنرل مارک ملی کو کابل سے امریکی افواج اور شہریوں کے غیر محفوظ اور بدانتظامی کے شکار انخلا کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان سے اس ناکامی پر باز پرس کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن نے کہا ہے کہ باگرام ائر پورٹ کے بجائے کابل ائر پورٹ سے امریکی افواج اور شہریوں کے انخلا کا فیصلہ افغانستان میں متعین امریکی افواج کے کمانڈر جنرل مارک ملر نے کیا تھا جس کا خمیازہ امریکی افواج اور شہریوں کو افراتفری، شدید دبائو اور بدنظمی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ محض پندرہ دنوں میں ایک ائر پورٹ سے ہزاروں پروازوں کے ذریعے قریباً دولاکھ افراد کا ہنگامی بنیادوں پر افراتفری کے عالم میں انخلا معمول کی بات نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس عرصے میں جہاں طالبان نے انخلا کے عمل میں طے شدہ معاہدے کے تحت کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی وہاں پاکستان نے بھی انخلا کی طے شدہ ڈیڈ لائین پر امریکا اور طالبان کے درمیان پیدا ہونے والی کسی ممکنہ بدمزگی سے دونوں فریقین کو بچانے میں جس ڈپلومیسی اور ثالثی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقررہ ڈیڈ لائین کے اندر اندر انخلا کا عمل مکمل کرنے میں جو سپورٹ فراہم کی اس پر اعتراض کے بجائے اس کو سراہا جانا چاہیے۔