نئی نسل کو مطالعے کا عادی بنانے کیلئے گھر اور تعلیمی اداروں کے ماحول کو علم دوست بنانا ہوگا

522

کراچی (رپورٹ/خالد مخدومی) نئی نسل کو مطالعے کا عادی بنانے کے لیے گھر اور تعلیمی اداروں کے ماحول کو علم دوست بنانا ہوگا‘ والدین فارغ اوقات میں موبائل فون یا سوشل میڈیا پر وقت صرف کرنے کے بجائے اچھی کتابیں پڑھیں اور بچوں کو بھی پڑھ کر سنائیں‘ان سے علمی گفتگو کریں‘ام الکتاب اور صاحب الکتاب کو پڑھا جائے‘تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو ڈگری سے نکال کر علم کی طرف آنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار سابق بیوروکریٹ اور ممتاز ماہر تعلیم ارشاد کلیمی، لاریب حدیث اکیڈمی کی سربراہ ڈاکٹر صبیحہ غوری اور معروف ماہر تعلیم سید شاہد مظفر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’نئی نسل کو مطالعے کا عادی کیسے بنایا جا سکتا ہے؟‘‘ ارشاد کلیمی نے کہا کہ تعلیمی ادارے اور اساتذہ کو ڈگری سے نکل کر علم پر واپس لے آئیں تو نئی نسل ازخود کتاب پر آجائے گی‘ وہ استاد ہی کیا جو اپنی کلاس میں روز کسی نئی کتاب کا تذکرہ نہ کرے‘ نئی نسل میں اس بات کا احساس یقین کی حد تک پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جو شخصیات ملک اور معاشرے میں اپنے قدموں کے نشان چھوڑتی ہیں ان کا تعلق علم اور کتاب سے جوڑا ہوتا ہے جس دن یہ یقین ان میں پیدا ہوگیا وہ کتاب کی طر ف واپس لوٹ آئیں گے‘ جو قومیں چاہتی ہیں کہ ان کو یاد رکھا جائے تو وہ کتاب سے دوستی رکھتی ہیں‘ کتابوںکو سونے میں تولنے کی روایت مسلم معاشرے نے ہی ڈالی تھی‘ نئی نسل کو مطالعے اور کتاب کی طرف واپس لانے کے لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ گھر کے ماحول کو علم دوست بنایا جائے‘ پی ایچ ڈی استاد کی قابلیت اپنے پی ایچ ڈی کے موضوع سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوجاتی ہے اور طالب علم عام کتب تو درکنار اپنی نصابی کتابوں سے بھی دور ہوچکے ہیں‘ اب سار ا کام نوٹس اور وائس اپ پر چلتا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ اگر معاشرے میں ام الکتاب ، صاحب الکتاب اور ان کے اصحاب کو شعور کے ساتھ پڑھا جائے تو نئی نسل دوبارہ مطالعے کی طرف لوٹ آئے گی جس طرح کسی فصل کو اگانے کے لیے اچھی زمین اور فصل کے لیے مددگار موسم کی ضرورت ہوتی ہے ‘پھر کھاد اور پانی بھی چاہیے اسی طرح انسان بھی ایک کھیتی کی طرح ہوتا ہے جس طرح کا بیج ڈالا جائے گا اسی طرح کی فصل سامنے آئے گی‘ اگر نئی نسل کو مطالعے کی طرف واپس لانا ہے تو سب سے پہلے والدین کو اپنے ہاتھوںمیں کتاب لینی ہوگی‘ اگر ایک بچہ کتاب سے مانوس ہوگا اور اپنے والدین کو کتاب پڑھتا دیکھے گا تو اس میں ازخود کتاب کی محبت اور مطالعے سے رغبت پیدا ہوگی ۔ سید شاہد مظفر نے کہا کہ آج کل کی تیز رفتار دنیا اور ٹیکنالوجی کی جدت نے انسان میں مطالعے کا شوق کافی حد تک کم کردیا ہے‘ بزرگ تو پھرکتابوںکا مطالعہ کرتے نظر آجاتے ہیں لیکن نوجوانوں میں ذوق مطالعہ میں کمی نظر آتی ہے اور وہ مطالعہ کرنے سے بھاگتے ہیں‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین اس وقت تو اس بات پر خفا نظر آتے ہیںکہ ان کے بچے کو مطالعہ کا شوق اور عادت نہیں ہے۔ مگر کہا جاتا ہے کہ بچو ں کو کسی بھی بات کا عادی بنانا ہو تو بچپن سے ہی اس کی تاکید کرنی چاہیے اور یہی تکنیک مطالعے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے‘ اگر بچپن سے ہی بچوں کی کتاب سے دوستی کرادی جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بڑے ہوکر ان میں یہ عادت پختہ ہوجائے گی ‘ اگر ہم اپنی نئی نسل کو مطالعے کا شوقین بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو5 سال کی عمر سے ہی پڑھنے کا عادی بنانا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ نئی نسل مطالعے کی شوقین بنے تو سب سے پہلے آپ خود فارغ اوقات میں موبائل فون یا سوشل میڈیا پر وقت صرف کرنے کے بجائے کہانی کی کوئی اچھی سی کتاب پڑھیں اور بچوں کو بھی پڑھ کر سنائیں‘ اس سے بچوں میں یہ تاثر قائم ہوگا کہ ان کے والدین فارغ وقت میں مطالعہ کرتے ہیں‘ بچوں کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ ہرکام میں اپنے بڑوں کی نقل کرتے ہیں‘ مطالعہ کا کمرہ بنائیں‘گھر میں مطالعہ کا کمرہ بچوں میں مطالعہ کا شوق پروان چڑھائے گا‘ بچوں کے روم میں کھلونوں والے شیلف کے ساتھ بک شیلف کا اضافہ کرکے ان کی دلچسپی کی کتابیں اس میں رکھیں۔جب بچوں کی بار باراپنی من پسند کتابوں پر نظر پڑے گی تو ان کا انہیں دوبارہ پڑھنے کا دل کرے گا۔ شاہد مظفر کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ کا بچہ کسی کتاب کو مکمل پڑھ لے تو اس سے کتاب کے موضوعات پر لازمی گفتگو کریں‘ یہ تمام گفتگو بچے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گی اور مطالعے میں اس کی دلچسپی بھی بڑھائے گی۔ ڈاکٹر صبیحہ غوری نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مطالعے سے دور ہوتی نئی نسل کو دوبارہ کتاب کے قریب کرنا ہے تو اس کے لیے ان کے بچپن سے کام کرنا ہوگا‘ ہرگھر میں بھلے چھوٹا سا ہی سہی مگر ایک کتب خانہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ بچوں کو مطالعے کا شوقین بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے‘ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گھر میں موجود کتابوں کی تعداد اور بچوں کی مجموعی تعلیمی قابلیت کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے‘ وہ والدین جو گھر میں زیادہ تعداد میں کتابیں رکھتے ہیں‘ اس حوالے سے زیادہ فائدے میں رہتے ہیں‘بچوں میں مطالعے کا شوق پروان چڑھانے کا بہترین طریقہ خود کتابیں پڑھنا ہے‘ اگر بچے سمجھتے ہیں کہ پڑھنا ایسا کام ہے جو بڑے نہیں کرتے تو ہوسکتا ہے کہ وہ بھی بڑے ہونے پر کتابوں سے دوری اختیار کرلیں۔ انہوں نے بتایا کہ فلوریڈا کی سینٹ لیو یونیورسٹی کی لائبریرین کیرول این مون کہتی ہیں کہ بڑوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو بچوں کے لیے ایک رول ماڈل بنائیں‘ وہ خود بھی مطالعہ اس لیے کرتی ہیں کیونکہ انہوں نے گھر میں اپنے بڑوں سے یہی تربیت پائی ہے۔