دو نام، دو خبریں، دو افراد، دو گروپ اور ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کی توجہ کا مرکز… ایک خبر… رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی نے شرعی پردہ شروع کر دیا۔ دوسری خبر… ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کو 14 اگست یومِ آزادی کے موقع پر مینار پاکستان لاہور میں 400 افراد نے ’’ظلم ودرندگی‘‘ کا نشانہ بنایا۔ اول الذکر خبر ٹھنڈے پیٹوں ’’برداشت‘‘ کر لی گئی چند حلقوں میں پزیرائی ملی تو باقی سب کو سانپ سونگھ گیا اور خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔ دوسری خبر تھی تو پاکستان کی یوم آزادی کے دن یعنی 14 اگست کی مگر فیس بک، یوٹیوب پر وائرل ہونے کے بعد بھی ’’خاطر خواہ‘‘ نتائج نہ پاکر اٹھارہ اگست کو ’’بیچاری‘‘ عائشہ اکرم کو چار دن بعد اپنی اس ’’بیچارگی‘‘ کی رپورٹ کرانی ہی پڑی جسے اس نے ہنستے ہنستے ہالی وڈ اور بالی وڈ کی اخلاق باختہ عورتوں کی طرح فلائنگ کس (ہوائی بوسے) اچھالتے ہوئے نہ صرف اس ’’بیچارگی‘‘ کی دعوت دی بلکہ اس ’’بیچارگی‘‘ کو بھرپور انجوائے کرکے واپس جاکر اس ’’بیچارگی‘‘ کی پوری ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے وائرل بھی کی اور اس تمام تر بیچارگی پر ٹھیک چار دن بعد اسے رونا آیا اور اس نے کالے کپڑے پہن کر عین ایام محرم میں کربلا کی پاک بیبیوں کا نام لے کر اپنی اس اخلاق باختگی کی حدوں کو چھوتی ہوئی نام نہاد ’’بیچارگی‘‘ پر دو نامحرم اینکر پرسنز کے درمیان بیٹھ کر ماتم کیا۔ طرہ تو ان سب کے سر ہے کہ جنہوں نے اس دور دجل میں بغیر تحقیق کیے ہمدردی کی بنیادوں پر وطن عزیز کی چولیں ہلا ڈالنے میں کوئی باک نہ چھوڑا۔
سوشل میڈیا بھی پھر ’’سوشل‘‘ میڈیا ہے یہاں عدل بکتا ہے، نوا بکتی ہے، بھوک سے بلکنے کی صدا بکتی ہے، ادا بکتی ہے، ردا بکتی ہے، اور ہر کس و ناکس کی ’’التجا‘‘ بھی بکتی ہے۔
التجا کی بھی بھلی پوچھی آپ نے ایک التجا وہ تھی جو عدل جہانگیری کی زنجیر ہلا کر سنائی جاتی تھی پھر وقت کے پنوں پر التجائیں قلم زد عام ہو کر کرلاتی رہیں کبھی سنی جاتیں تو کبھی بھیڑ بکریوں کی مانند ’’ہنکا دی‘‘ جاتیں ستم تو اس وقت بھی وقت کے ایوانوں میں چھپے شبستانوں نے دیکھا کہ جب اسی’’التجا‘‘ کی آواز سن کر داد رسی طلب کرنے پر بگٹی کی جان بے امان ہو گئی مگر شہنشاہ وقت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اور آج ریاست مدینہ کے داعی ایک دن عورت کی حیا اور ستر کو قائم رکھنے کے لیے بیان دے دیں تو یہی سوشل میڈیا گدھ کی طرح اس غیرتِ ناہید کی دیپک تان کو نوچ نوچ کر اس طرح کھا جاتا ہے کہ ریاست مدینہ کے نام نہاد داعی کو بھی اپنا بیان واپس لینا پڑتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ ’’جیسے چاہو جیو‘‘ اب جیسے ’’چاہت‘‘ پر جس کی جس طرح منحصر ہوتا ہے وہ جی رہا سر اٹھا کر جیے یا سر جھکا کر جیے دل لگا کر جیے یا دل کو لگا کر جیے۔
ان دو خبروں سے ہمیں تو زندگی نے سکھا دیا کہ اتنے بڑے بڑے ’’مگرمچھوں‘‘ کے بیچ میں ’’تیر‘‘ بھی ہے تلوار بھی جہاں ’’شیر‘‘ بھی کھلے پھرتے ہیں اور ’’ بلا‘‘ بھی عوام کی التجاؤں پر مہنگائی کے چھکے اور چوکے لگا رہا ہے ان سب سے مستفید ہو کر بھی اک صنف نازک محض اک کپڑے کی دھجیوں کو ’’پردے‘‘ کی صورت اختیار کر کے سکون اور عزت پاجاتی ہے ’’ترازو‘‘ کے پلڑے میں تیر، تلوار، شیر، بلا سب ہار جاتے ہیں اور ہلکے سے کپڑے والا ’’پردہ‘ بازی‘‘ لے جاتا ہے تو بے ساختہ دل چاہتا ہے کہ مینار پاکستان لاہور میں 14 اگست کو ریمبو نامی نوجوان سے بے نام و نشان رشتے میں جڑی عائشہ اکرم کو جاکر بتا دوں کہ: ’’میری پیاری عائشہ تمہارے نام سے مجھے بہت محبت
ہے اس لیے نہیں کہ یہ میری چار پریوں میں سے ایک پری کا نام ہے بلکہ اس لیے کہ یہ میرے، تمہارے امت کے، تمام انسانیت کے، تمام جہانوں کے محبوب، غمخوار محمد مصطفیؐ کی بہت پیاری اور محبوب ترین زوجہ کا نام ہے مجھے اس نام سے بہت زیادہ پیار ہے اور پیاری عائشہ اکرم کاش تم قرآن ترجمہ سے پڑھتیں، اس کی تفسیر پڑھتیں سیرت النبیؐ کا مطالعہ ہی کر لیتیں تو تمہیں پتا چلتا کہ قرآن کریم میں جہاں عورت کے لیے گھروں میں قرار پکڑنے والی آیت آتی تو میرے حبیب اللہ میرے محمد مصطفیٰؐ کی یہ پیاری زوجہ بہت زیادہ رویا کرتیں اتنا زیادہ کہ دوپٹا مبارک بھیگ جاتا کس بنا پر ؟ اس تجسس میں ہی کوئی یہ جاننے کے لیے ہی قرآن کھول لے تو سمجھوں گی کہ نیا پار لگ گئی کہ یہ دور دجل ہے قرآن کریم کو دیکھنا، دیکھ کر تھام لینا، تھام کر پڑھ لینا اور پڑھ کر عمل میں لے آنا جوئے شیر نکالنے کے مترادف ہے۔ بہر کیف نصرت کی فتح (یعنی فتح کی بھی فتح) اور کسی نام نہاد ریمبو کی بے نام سے رشتے میں جڑی عائشہ کی ذلت نے مجھے بہت رلایا ستم تو یہ ہے کہ یہ ذلت اس ٹک ٹاکر عائشہ اکرم نے خود دعوتی پیغام کے ذریعے مول لی جس دعوتی پیغام میں اس نے کہا کہ جس جس نے میرے ساتھ ویڈیو بنوانی ہے وہ فلاں دن فلاں وقت مینار پاکستان لاہور آجائے اور جب سب اس کی اس بیہودہ فرمائش پر آ گئے تو اسی پر بس نہیں کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یوم آزادی پر مغربی بے حیائی کے تمام تر لوازمات اور اداؤں کو اختیار کرتے ہوئے اس ٹک ٹاکر نے ان نامحرم ’’400 درندوں‘‘ کو ہوائی بوسوں سے نوازا۔
میں کیسے کہہ دوں کہ میرے ملک پاکستان کے وہ 400 مرد بھوکے بھیڑیوں کی طرح اک ’’بکری‘‘ پر پڑ گئے میں یہ کیوں نہ کہوں کہ ملک عزیز میں مغربی تہذیب سے امپورٹ شدہ حرام تہذیبی عناصر کی کلوننگ زدہ اک عاقبت نااندیش نے اپنی ہی طرح کے کلوننگ کا شکار مردوں کو دعوت دی کہ آؤ اور آج مل کر پاکستان کی جڑوں کو اپنے مغربی آقاؤں کے گماشتوں کے حکم پر کھوکھلا کرنے کی کوشش کریں مگر مغربی کلوننگ شدہ اس چند افراد کے ٹولے کو معلوم ہونا چاہیے کہ الحمدللہ ہمارے ملک کی جڑوں میں، بنیادوں میں اتنا ’’حلال‘‘ اور پاکیزہ لہو بہا ہوا ہے کہ جو قیامت تک اس وطن کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہے۔ جہاں دھوپ میں لمبی قطاروں کے بیچ میں ’’زنانی‘‘ آ جائے تو مرد پہلی بار اس کے لیے چھوڑ دیا کرتے ہیں۔
مانا کہ اس کلوننگ زدہ نسل کے چند نمائندوں کی وجہ سے زینب، کائنات جیسی معصوم بچیاں تو کیا اب تو مرد، عورت اور لڑکے بھی محفوظ نہیں رہے مگر پھر کہوں گی کہ میرا ملک اپنے نام اور مقامات ہی کی نہیں بلکہ اپنی عوام کی پاکیزگی میں بھی بے مثال ہے جہاں غیر ملکی سیاح عورتیں بھی آتی ہیں تو انہیں اجرکوں، شالوں اور چادروں کے تحفے دیے جاتے ہیں، جہاں قدرتی آفات میں بھی عورتوں کی لاشیں اٹھانے والے اپنی قمیصوں میں لپیٹ کر پردے کے ساتھ اٹھاتے ہیں وہاں زندوں کو بے لباس کرنے کا تصور بھی نہیں ہے، جہاں یہ کلوننگ شدہ درندے واقعی درندگی کا مظاہرہ کریں تو میرے وطن کی حیا دار سمٹ کر کہہ اٹھی کہ: ’’خدارا میری تصویر نہ بنانا میں اس ذلت سے جی نہیں سکوں گی‘‘۔
اور یہ ٹک ٹاکر اپنی دعوتی ذلت پرچار دن بعد اتنی تفصیل سے تمام تر جزیات کے ساتھ میڈیا پر کھول کھول کر بیان کر رہی تھی کہ سننے کی تاب نہ لا کر اس بیہودہ بیان بازی کو بند کرنا پڑا شدت سے احساس ہوا کہ میرا رب تو قرآن میں ہمیں بہت ہی پہلے تنبیہ کر چکا کہ: ’’شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ بھی کہ شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ بے حیائی پھیلے‘‘۔
اس سارے ٹوپی ڈرامے سے یہ معلوم ہوا کہ اس تمام تر واقعہ سے بے حیائی پھیلانا، برائی کو زبان زد عام کرنا، فحاشی کی ترویج کرنا اور ان باتوں کو گھر گھر پھیلانے کی کوشش کرنا کہ وہ لوگ بھی جو ابھی تک یو ٹیوب وسوشل میڈیا کی آلودگی سے دور تھے ان سب نے حقائق جاننے کے لیے اس مغربی حرام کلوننگ زدہ ٹیم کے یو ٹیوب اکاؤنٹس سرچ کیے۔
مسلم اصول کے تحت ہر دور میں بغیر تحقیق کے بات آگے پہنچانا ناپسندیدہ عمل گردانا گیا مگر آج تو بہت زیادہ ضرورت ہے اس امر کی کہ کوئی ایسی خبر وائرل نہ کریں کہ جس میں اخلاق باختگی کے فروغ کا شائبہ تک ہو ان کے خلاف احتجاج ہی کرنا ہے تو ان کے اکاؤنٹس بند کروائیں ایسے افراد کو ٹارگٹ کر کے حکومت وقت ان کی بیخ کنی کرے اگر وہ واقعی اپنے ریاست مدینہ کے دعوے میں سچی ہے تو کیوں کہ مہنگائی کے ساتھ تو جیا جا سکتا ہے بے حیائی کے ساتھ ساتھ نہیں۔