اسلام آباد(میاں منیراحمد)پیپلز پارٹی کی خارجہ پالیسی کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس میں 3 بنیادی نکات ملتے ہیں، پیپلزپارٹی مغربی ملکوں کے قریب رہنے والی سیاسی جماعت ہے،ا نسانی حقوق کی بات کرتی ہے اور خواتین و اقلیتوں کے ایشوز پر اس کا ایک نکتہ نظر ہے،یہ تمام نکات امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں چونکہ ایک عموی تاثر ہے کہ امریکا دنیا بھر کی معیشتوں پر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے اپنی پالیسی نافذ کراتا ہے لہٰذا پیپلزپارٹی کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہ امریکا جیسے دنیا کے اہم ملک کو نظر انداز نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش میں رہتی ہے ، اسی لیے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری حالیہ دنوں میں امریکا کے دورے پر رہے۔ یہ بات مسلم لیگ(ج) کے صدر اقبال ڈار نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کہی کہ (بلاول زرداری بار بار امریکا کا دورہ کیوں کر رہے ہیں )۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں عموی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ امریکا کی مدد کے بغیر کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں نہیں آسکتی یا اقتدار میں رہنے کے لیے کم از کم اس کے ساتھ ہم آہنگی ہونا ضروری ہے،بلاول بھی اسی لیے اعتماد سازی کے لیے کوشش کر رہے ہیں تاکہ پیپلزپارٹی کے لیے اقتدار میں آنا آسان ہوجائے ۔مسلم لیگ(ض) کے صدر محمد اعجاز الحق نے کہا کہ بلاول زرداری اپنے لیے لابنگ کر رہے ہیں تاکہ ان کی جماعت اقتدار میں آسکے اسی لیے وہ بار بار امریکا جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماآزاد کشمیر کے سینئر وزیر سردار تنویر الیاس نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا موقف درست ثابت ہوا کہ افغانستان کا مسئلہ فوجی نہیں بلکہ سیاسی حل چاہتا ہے لہٰذاحالیہ اہم تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو پاکستان میں فی الحال کوئی چیلنج نہیں ہے۔ معروف تاجر رہنمااسلام آباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرزاینڈاسمال انڈسٹریز کے سابق سینئر نائب صدر اور بلیو ایریا کی سپریم کونسل کے رکن عمران بخاری نے کہا کہ عموی رائے ہے کہ پیپلزپارٹی غریبوں کی بات کرتی ہے اور یہ جماعت ملک میں بھٹو کے بعد3بار اقتدار میں آچکی ہے ،اس کی خارجہ پالیسی دیکھی جائے تو مغربی ملکوں کے قریب نظر آتی ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی بھی بات کرتی ہے،اس کے چیئرمین اتفاق سے قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے بھی چیئرمین ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان ہو یا مقبوضہ کشمیر، یہاں ہونے والے مظالم پر یہ جماعت ہمیں خاموش نظر آتی ہے تاہم جہاں تک امریکا بار بار جانے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہی بات زیادہ معقول معلوم ہوتی ہے کہ وہ امریکی حکام کے ساتھ اپنا رابطہ بڑھانا چاہتے ہیں اور انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت اقتدار میں آکر کس طرح کے ایشوز پر توجہ دے گی اور اس کے لیے وہ عالمی حمایت بھی چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی خارجہ پالیسی کو قریب سے دیکھنے والے تجزیہ کار اعجاز احمد کہتے ہیں کہ 2ماہ قبل بلاول امریکا گئے تھے تو ان کی وہاں انرجی کے شعبے میں کام کرنے والے ماہرین سے ملاقات ہوئی تھی، بلاول چاہتے ہیں کہ سندھ میں ونڈ انرجی کے منصوبے بنائے جائیں اب جب کہ وہ اگلے ماہ پھر امریکا جانے والے ہیں تو اس دورے میں اس خطے کی تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال پر ضرور بات ہوگی لیکن امکان یہی ہے کہ ابھی امریکی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آرہی لہٰذا امریکا پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی بات فی الحال سن تو لے گا تاہم عمل درآمد کے لیے وہ جلد بازی نہیں کرنا چاہے گا ،امریکا نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں اس کے خلاف نفرت بڑھ جائے، وہ یہاں سے انخلا کے بعد اپنے لیے کوئی ایسا ماحول نہیں دیکھنا چاہتا کہ طالبان رد عمل میں چین یا کسی بڑے ملک کے ساتھ جا کھڑے ہوں،بلاول اگر امریکی حکام کو یہ باور کرا دیں کہ پاکستان میں اس کی ہم خیال سیاسی جماعتوں کا وزن ہے تو پھر کہیں مستقبل قریب میں امریکا ان سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہے گا ،فی الحال کوئی ایسا موقع نہیں ہے ۔پیپلزٹریڈر سیل کے رہنما عمران شبیر عباسی کے مطابق پیپلزپارٹی دنیا کے حالات اور خصوصاً اس خطے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ تمام اہم ممالک کو اپنی پالیسیوں سے آگاہ کرے تاکہ اسے اس خطے میں کوئی رول مل سکے،اگر بلاول اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوگئے تو مستقبل پیپلزپارٹی کا ہے۔جماعت اسلامی اسلام آباد کے نائب امیر ملک عبد العزیز نے کہا کہ ہم پیپلزپارٹی کے ماضی سے اچھی طرح آگاہ ہیں ،یہ بات تو غریبوں کی کرتی ہے مگر اس کی پالیسیاں سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جا ملتی ہیں، امریکا جیسا سرمایہ دارانہ نظام کا حامل ملک اس وقت دنیا کی معیشت کو قابو کیے ہوئے ہے،افغانستان میں اسے شکست ہوئی ہے اور اسے یہاں سے نکلنا پڑاہے تاہم عالمی سطح پر اس کا ابھی رول ختم نہیں ہوا،یہ کسی نہ کسی شکل میں ابھی قائم ہے ،پیپلزپارٹی بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ عالمی برادری کے اس اہم ملک کے سامنے اپنا کیس پیش کرے اور اپنے لیے حمایت تلاش کرے۔