میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں

275

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر
2012ء بلدیہ فیکٹری کراچی میں 259 مزدوروں کو زندہ جلادیا گیا۔ معلوم ملزمان سرعام دندناتے پھرتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں درندگی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی اور پھر کراچی ہی میں یہ المناک حادثہ کورنگی کی BM Luggage انڈسٹری میں 19 مزدور زندہ جل گئے۔ بلکہ جلا دیے گئے کیونکہ باہر نکلنے کے تمام دروازے بند تھے۔ اُس پر بڑے بڑے تالے پڑے ہوئے تھے۔ بھیڑ بکریوں کی طرح انسانوں کو بے گار کیمپ میں بند کیا ہوا تھا۔ 10 سال پہلے کے حادثے کے 259 مقتول بھی محکمہ محنت، EOBI، سوشل سیکورٹی اور WWF میں رجسٹرڈ نہیں تھے اور جل کر راکھ ہونے والے یہ مزدور بھی رجسٹرڈ نہیں تھے۔ اس سے بڑی سفاکی اور بے حسی کوئی ہوسکتی ہے کہ پے در پے حادثوں کے باوجود قانون کہیں نہیں۔ یہی لاقانونیت ہے اور اسے ہی جنگل کا قانون کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہاں حکومت بھی ہے، پارلیمنٹ بھی ہے، میڈیا بھی ہے اور عدلیہ بھی ہے تو عقل کا اندھا ہی اس پر یقین کرسکتا ہے۔
ہم مسلسل شور مچا رہے ہیں کہ اس ملک میں مزدور کی کوئی آواز نہیں۔ اس کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ اس کے لیے بنائے گئے قوانین اور سماجی تحفظ کے ادارے نمائشی ہیں۔ مرکز میں مدینہ کی ریاست کے دعویدار اور سندھ میں عوامی اور مزدور کسان کی مالا جپنے والے سب ہی بدترین سرمایہ داری جاگیرداری ذہنیت کے حامل ہیں اور مزدوروں، کسانوں پر ظلم کے اندر مشترک ہے۔ بلوچستان میں آئے روز کان کن کوئلے کی کانوں کے اندر دب کر مرجاتے ہیں اور جو بچتے ہیں وہ دہشت گردوں کی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس ظلم اور لاقانونیت، جنگل کے قانون اور سفاک نظام میں اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے مزدور ظلم کی چکی میں پس رہا ہے، لیکن اس 74 سالہ ظالمانہ نظام کے خلاف اُٹھنا ہوگا اور ایک پرامن انقلاب ووٹ کے ذریعے اپنی ووٹ کی طاقت سے مسلط اس ٹولے سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔