کراچی (رپورٹ: الیاس متین) دنیا بھر میں تیزی سے تبدیل ہوتی سیاسی صورت حال نے دیرینہ حریف ممالک کو بغداد میں جمع ہونے پر مجبور کردیا۔ الجزیرہ کے مطابق عراقی دارالحکومت میں ہونے والی کانفرنس میں ترکی، ایران، سعودی عرب، قطر، مصر، فرانس اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ کانفرنس کا انعقاد عراقی وزیر اعظم مصطفی کاظمی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ حالی عرصے میں سیاسی طور پر بہت سرگرم رہے اور انہوں نے امریکا کے دورے پر اعلیٰ حکام سے ملاقات بھی کی تھی۔ بغداد میں جمع ہونے والے ممالک اس وقت کئی تنازعات کا شکار ہیں۔ 2017ء میں سعودی عرب، مصر اور دیگر عرب ممالک نے قطر کا معاشی بائیکاٹ کردیا تھا۔ یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا،جس کے بعد کچھ عرصہ قبل ہی ان کے درمیان مراسم بحال ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی جاسوسوں کے ہاتھوں استنبول میں صحافی جمال خاشق جی کے قتل کے تناظر میں ریاض حکومت اور انقرہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں، جب کہ مصر کے بھی ترکی کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کو خطے میں کارروائیوں کے باعث سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ تہران حکومت نے یمن میں حوثی باغیوں کی بھرپور عسکری امداد جاری رکھی ہوئی ہے، جب کہ یمنی حکومت کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔ ریاض حکومت اور تہران کے درمیان اب تک باضابطہ مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔ کانفرنس کے اختتام پر عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کانفرنس کا اعلامیہ مختلف مسائل سے متعلق ہے، جن میں اکثر عراق سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعے عراق خطے کے ان ممالک کو ایک ہی میز پر بٹھانے پر کامیاب ہوگیا،جن کے درمیان سنگین اختلافات اور مسائل ہیں۔ فواد حسین کا مزید کہناتھا کہ عراق میں علاقائی سطح پر بحرانوں کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی مشترکہ کوششوں کا دروازہ کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور فریقین مثبت نتائج حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق نے خطے کے مختلف ممالک کے درمیان سفارتی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ادھر کانفرنس کے افتتاحی خطاب میں عراقی وزیر اعظم مصطفی کاظمی نے کہا کہ عراقی سرزمین علاقائی اور عالمی تنازعات میں استعمال نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مختلف سطحوں پر بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ کانفرنس کو بلانے کا مقصد بات چیت اور شراکت داری سے متعلق راہ ہموار کرنا ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی اور لاحاصل جنگوں میں الجھنے کا دور گزرچکا اور ہمیں اب تعمیر پر توجہ دینی چاہیے۔