کراچی (رپورٹ خالد مخدومی )سانحہ مہران ٹاؤن میں 17 مزدور پیشہ افراد کی زندگی کے چراغ بجھنے سے ان کے اہل خانہ کو اپنا مستقبل اندھیروں میں ڈبوتا نظر آنے لگا، جاںبحق افراد کے گھر دوسرے روز بھی ماتم کدہ بنے رہے،کہیں ایک ماں نوحہ گر تھی کہ اس کے اکلوتے بیٹے کی لاش انصاف مانگ رہی ہے ‘ تو کسی کی بیٹی کو ڈاکٹر بننے کا خواب اب واقعی خواب لگنے لگا ،کسی بوڑھے باپ کو اپنی پوتے پوتیوں کے سروں سے چھت چھن جانے کا خوف دل میں درد کا سبب بنے لگا کہیں کسی بھائی کو اپنے 8بھتیجے بھتیجوں کی تعلیم وتربیت میں کمی کاخوف رلانے لگا۔ فیکٹری حادثے میں جاں بحق ہونے والے 33 سالہ صابر کی 12 سالہ بیٹی اپنے والد کا خواب پورا نہ کرسکی۔ 12 سالہ آمنہ نے نمائندہ جسارت کو روتے ہوئے بتایا کہ ’ابو کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، میں بابا کی خواہش پوری کروں گی، مرحوم کے صابر کے 3 بچے ہیں۔ مرحوم کے بھائی نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ آتشزدگی سے جاں بحق ہونے والوں کو گھر فراہم کیے جائیں اور ان کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ماہانہ معاوضہ ادا کیا جائے۔ صابر کرایے کے گھر میں رہائش پذیر تھے، مرحوم کی اہلیہ شدت غم سے نڈھال ہیں اور ان کے معصوم بچے بھی اپنے بابا کا انتظار کررہے ہیں جبکہ ان کو ابھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آسکتے اور منوں مٹی تلے جاسوئے ہیں، مہران ٹاون سوسائٹی میں جاںبحق ہونے والے کاشف کی والدہ نے اپنی گفتگو میں کہاکہ یہ سب سوچی سمجھی سازش تھی، ان کا کہناتھاکہ وہ فیکٹری پہنچنے والے ابتدائی لوگوں میں شامل تھیں اس وقت تک سب زندہ تھے ، سب چیخ رہے تھے،آگ بجھانے کا کوئی سلنڈر ان کے پاس نہیں تھاغم سے نڈھال ماں کا کہناتھا کہ سب چلا رہے تھے کہ ابھی تالا توڑا جائے ،2 گھنٹے تک پانی کی گاڑی نہیں آئی جب وہ گاڑی آئی تو آگ نہیں دھواں بجھا رہی تھی ان کا کہناتھاکہ کوئی انچارج چوکیدار نہیں مرا، چوکیدار لوگوں کو بھگا رہا تھا، فیکٹری میں آگ لگنے سے جاں بحق 3 بھائیوںعرفان ، فرحان اورفرمان کے والد محمد احسان نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں جن میں سے 3 آج جاں بحق ہوگئے۔محمد احسن نے کہا کہ تینوں جاں بحق بیٹے شادی شدہ تھے، ان کے 4، 4 بچے ہیں۔ جاں بحق بھائیوں کے والد نے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، ایک بیٹا نشے کا عادی ہے۔ محمد احسن نے کہا کہ حکومت میرے اور اہلخانہ کے لیے کچھ کرے۔