اسلام آباد(خبر ایجنسیاں)عدالت عظمیٰ نے صحافیوں کوہراساں کرنے سے متعلق 20اگست کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی جانب سے لیے گئے ازخودنوٹس کاحکم نامہ واپس لے لیا۔ عدالت عظمیٰ میںقائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے سے متعلق ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار سے متعلق کیس کی سماعت کی۔عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہاکہ از خود نوٹس صرف چیف جسٹس پاکستان کا اختیار ہے، کوئی جج یا بینچ از خود نوٹس نہیں لے سکتا، نہ ہی چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے تک کوئی جج انکوائری کرانے یا رپورٹ طلب کرنے یا نوٹس جاری کر نے کا مجاز ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ صحافیوں کو ہراساں کیے جانے سے متعلق جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا 20 اگست کو لیا گیا از خود نوٹس واپس لیا جاتا ہے ، از خود نوٹس کی تمام کارروائی نمٹائی جاتی ہے ، اب پریس ایسوسی ایشن کی درخواست چیف جسٹس کے سامنے رکھی جائے گی۔قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں پر ضرب آئی تو عدالت عظمیٰ دیوار بن کر کھڑی ہوگی، آئین کا تحفظ اور بنیادی حقوق کا نفاذ عدلیہ کی ذمے داری ہے،جسٹس قاضی امین نے کہا صحافی عدالت عظمیٰ سے مایوس ہو کر نہیں جائیں گے، صحافیوں پر حملہ عدلیہ پر حملہ ہے۔عدالت میں درخواست دائر کرنے کا ایک طریقہ کار ہے، درخواست دائر ہونے کے بعد رجسٹرار آفس جاتی ہے جہاں اس کا نمبر لگتا ہے پھر آگے کارروائی چلتی ہے، ماضی کی متنازع روایات موجود ہیں،کیا سائل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس کا مقدمہ کس جج نے سننا ہے؟جسٹس منیب اختر نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ اگر صحافیوں کی طرف سے درخواست طے شدہ طریقہ کار کے تحت دائر کی جاتی تو معاملہ مختلف ہوتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم بنیادی حقوق کے ضامن ہیں،اگر صحافیوں پر کوئی ضرب آئی تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے،یہاں بنیادی سوالات 3 ہیں، آرٹیکل 184 کی شق 3 کے اختیار کے استعمال کا طریقہ کار(پیرا میٹرز) کیا ہے،آرٹیکل 184 کی شق 3 کا استعمال کیسے ہو ،آرٹیکل 184 کی شق 3 کا استعمال کون کر سکتا ہے؟جوڈیشل کارروائی بعد میں ہوتی ہے، کسی درخواست پر جج نوٹس تو لے سکتا ہے، اس کے بعد کیا کرنا ہے ؟سوال یہ ہے،لکھے گئے خط یا اخباری خبر پر نوٹس لینے کی روایات موجود ہیں،جب کسی جج صاحب نے نوٹس لیا تو بینچ چیف جسٹس نے بنایا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا اور 20 اگست کو پریس ایسوسی ایشن کی پیش کی گئی درخواست چیف جسٹس کے سامنے رکھی جائے گی۔