واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے ممکنہ طور پر وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ ٹرمپ دور کا پروگرام تارکین وطن کو مجبور کرتا ہے کہ وہ میکسیکو میں ٹھیر کر پناہ ملنے کا انتظار کریں۔ 3ججوں کے اختلاف کے ساتھ عدالت نے منگل کے روز ایک ذیلی عدالت کے فیصلے کو روکنے سے انکار کر دیا جو انتظامیہ کو اس پروگرام کو غیر رسمی طور پر بحال کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ماتحت عدالت کے فیصلے کے تحت انتظامیہ کو پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے نیک نیتی سے کوشش کرنی چاہیے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ڈی اے سی اے کو ختم کرنے کا فیصلہ وفاقی قانون کی خلاف ورزی، من مانی اور مضحکہ خیز تھا۔ عدالت نے حکم میں لکھا کہ انتظامیہ اس دعوے پر کامیابی کا امکان ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے کہ مائیگرنٹ پروٹیکشن پروٹوکول کو ختم کرنے والا میمورنڈم من مانی اور مضحکہ خیز نہیں تھا ۔ البتہ 3 ججوں نے اس مقدمے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کوئی رائے نہیں لکھی۔ ایک بیان میں محکمہ داخلی سلامتی نے کہا کہ اسے افسوس ہے کہ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ محکمے نے کہا کہ وہ ضلعی عدالت کے حکم کو چیلنج کرتا رہے گا۔ امریکن سول لبرٹیز یونین نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ میکسیکو میں قیام ختم کرنے کی مکمل دلیل پیش کرے جو عدالتی جانچ پڑتال کا مقابلہ کر سکے۔ حکومت کو اس غیر قانونی پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے دستیاب تمام اقدامات کرنے چاہییں، بشمول اسے مکمل وضاحت کے ساتھ دوبارہ ختم کرنا۔ حکومت کو اس فیصلے کو پناہ کے منصفانہ نظام کی بحالی کا ارادہ ترک کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اس وقت ہزاروں تارکین وطن امریکا میں پناہ کے متلاشی ہیں۔ ٹرمپ دور کی پالیسی کا مقصد پناہ گزینوں کی حوصلہ شکنی کرنا تھا، لیکن ناقدین کا کہنا تھا کہ اس پالیسی نے لوگوں کو امریکا میں تحفظ حاصل کرنے کے قانونی حق سے محروم کردیا تھا۔