جماعت اسلامی کا پیغام

344

جماعت اسلامی کا نام آپ نے سنا ہوگا جب بھی سنا ہوگا شاید یہ سوچ کر گزر گئے ہوں گے کہ ایسی مذہبی اور سیاسی جماعتیں تو بہت سی ہیں ، کیا ضرورت ہے کہ میں اس میں شامل ہونے اور کچھ کرنے کا سوچوں؟
آپ جماعت اسلامی کا ساتھ کیوں دیں ؟ اسی سوال کا جواب دینے کے لیے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ۔ آئیے ! بات یہاں سے شروع کریں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ زندگی ہے تو دنیا کی ہر نعمت سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور آخرت کی ساری لازوال نعمتیں بھی کماسکتے ہیں ۔ اگر زندگی اصل نعمت ہے تو پھر زندہ رہنا ایک خوشگوارتجربہ اور لذت بخش کام ہوناچاہیے ۔لیکن …. سوچئے ، تو پھر آپ کا دل خود پکار اٹھے گا کہ آج زندگی پریشانیوں کے بوجھ تلے پسی جارہی ہے اور زندہ رہنا ایک تلخ تجربہ اور تکلیف دہ کام بن گیاہے ۔ پیٹ بھرنے کی فکر میں تگ و دو کرتے صبح سے شام ہوجاتی ہے لیکن ساری کوششوں کے باوجود بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث خرچ پورا نہیں ہوتا ۔ رہنے کے لیے صاف ستھرا مکان میسر نہیں ، بچوں کو داخلے نہیں ملتے اور مل جائیں تو تعلیم کے بعد روزگار کے لیے در بدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں ۔علاج کے لیے کمر توڑ اخراجات اور ہسپتالوں کے چکر بس سے باہر ہیں ۔
وطن عزیز کو دیکھیں تو ہر طرف ظلم اور فساد کا راج ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوںکو برابر بنایا ہے لیکن چند لوگوں نے اپنے حق سے زیادہ زمین اور وسائل حاصل کرلئے ہیں ۔ اپنے جیسے انسانوں کی گردنوں پر سوار ہو کر ان پر غربت و جہالت مسلط کر رکھی ہے ۔ اپنے ہم وطنوں کو کمزور بنا کر ان کے حقوق دبالیے ہیں اور ان کو زندگی کی معمولی خوشیوں سے بھی محروم کر رکھاہے ۔ بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور جائز سے جائز کام بھی سفارش اور رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتے ۔ پولیس کے ہاتھوں عزت محفوظ نہیں ، جیبیں خالی کر کے بھی عدالتوں میں انصاف نصیب نہیں ہوتا۔ تعلیم کا معیار پست ہے اور اخلاق کا اس سے بھی کہیں زیادہ بگڑاہوا ۔ گھر کے اندر ہوں یا باہر ، دل و نگاہ کو پاک رکھنا محال ہے ۔ فوج کے چند سربراہ دشمن کو فتح کرنے کے بجائے اپنی قوم کو ہی مارشل لاءکے ذریعے بار بار فتح کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور سرکاری افسر عوام کے خادم بننے کے بجائے ان کے آقا بن بیٹھے ہیں ۔
آپ اکثر یہ سوچتے ہوں گے کہ مسائل کا یہ جنگل کیسے صاف ہوسکتاہے اور زندگی اطمینان کا گہوارہ کس طرح بن سکتی ہے ؟جماعت اسلامی کا پیغام اسی سوال کا جواب ہے
ہمارا پیغام :۔
اگر مسلمان آج دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں تو وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ہم نے وہ مشن فراموش کر دیاہے جس کے لیے یہ امت بنی تھی ۔ ہم اللہ اور اس کے رسول سے بے وفائی کر رہے ہیں ۔ ہم نے اس دنیا ہی کو اپنا محبوب و مطلوب بنالیاہے اور خدا کے دین کے لیے اپنے وقت اور مال کا کوئی حصہ صرف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ مسلمان قرآن پڑھتے اور رسول کی محبت کا دم بھرتے ہیں ، لیکن ان کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بالکل نہیں جھجکتے ۔ جماعت اسلامی ہر مسلمان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ خدا کو خدا ، اور رسول کو رسول مان کر تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زندگی کے کسی حصے میں ان کے خلاف چلوبلکہ تمہارا فرض ہے کہ پوری زندگی میں اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک تم جمع ہو کر ایک جماعت نہ بن جاؤ۔
اسی کا رِ رسالت کا فرض ادا کرنے کے لیے جماعت اسلامی بنی ہے ۔ یہ محض ایک ایسی سیاسی جماعت نہیں جس کی سرگرمیاں انتخابات تک محدود ہوں ، نہ ایک مذہبی جماعت ہے جس کی دلچسپیاں صرف اعتقادی و فقہی اور روحانی مسائل ہی کے لیے مخصوص ہیں بلکہ ہماری ساری جدوجہد کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ ہم اللہ کے مطیع اور فرمانبردار بن جائیں اور اس کی رضا اور قربت حاصل کر سکیں ۔ یہ رضا اور قربت ایک ایسے انقلاب کے لیے جدوجہد سے ہی حاصل ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں دلوں پر بھی اللہ کی حکومت قائم ہو جائے اور پوری زندگی پر بھی ، پرائیوٹ ہوں یا پبلک ۔ یہ اعلان کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے ” اسی ہمہ گیر “ انقلاب کی دعوت ہے ۔
ہمارا پروگرام :۔
جماعت اسلامی کا پروگرام یہی ہے کہ اپنے پیغام سے غافل لوگوں کو جگائے ۔ جو ساتھ دیں ان کی تربیت کر کے ان کو منظم قوت بنادے ، معاشرے میں صحیح اسلامی فکر ، اسلامی سیرت اور سچے مسلمان کی سی عملی زندگی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور عوام کی قوت سے زندگی کے ہر شعبہ میں بالخصوص حکومت میں خدا ، رسول کے باغیوں کے ہاتھوں سے قیادت اور فرمانروائی چھین کر اس کے مطیع و فرماں بردار بندوں کے حوالے کر دے ۔ جماعت اسلامی اپنی ساری قوت پاکستان کو ایسی فلاحی و اسلامی ریاست بنانے میں لگا رہی ہے جو خلافتِ راشدہ کا نمونہ ہو ۔ جو ظلم و استحصال کی ہر شکل مٹا دے ۔ جو ہر شہری کو اس کی بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان، علاج،
تعلیم ،انصاف )کی ضمانت دے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کرے ۔ جہاں تمام بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہوں ۔ جہاں عوام انتخابات کے ذریعے ہی اپنی مرضی سے جسے اقتدار میں لانا چاہیں لاسکیں اور جسے ہٹانا چاہیں ہٹاسکیں۔