امریکا اور اتحادیوں کی شکست کو امت مسلمہ کی تہذیبی فتح میں تبدیل کرنا چاہئے،سراج الحق

663
اسلام آباد:امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ایرانی سفیرسے ملاقات کررہے ہیں

اسلام آباد( نمائندہ جسارت ) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے ہم توقع رکھتے ہیں کہ ایران عالم اسلام کے اتحاد کے لیے مرکزی کردار اور پوری امت کی ترجمانی کرے گا۔ مولانا مودودیؒ کا تعلق امام خمینی کے ساتھ اسلامی اور انقلابی فکر کی بنیاد پر تھا۔افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے ایران اور پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی شکست ایک تاریخی موقع ہے اور ہم سب کو مل کر اس کو امت مسلمہ کی تہذیبی فتح میں تبدیل کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی میڈیا سیل کے مطابق ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر سیدمحمد علی حسینی سے ملاقات کے دوران کیا۔ ملاقات سراج الحق کی رہائش گاہ پر ہوئی اور تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے امور خارجہ کے ڈائریکٹر آصف لقمان قاضی بھی موجود تھے۔ ایرانی سفیر نے سراج الحق کو ’’اسلامی اتحاد، امن، عالم اسلام میں تقسیم اور تنازعات سے گریز‘‘ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ افغانستان کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ اسلامیت اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ 40 سال سے جو خون بہہ رہا ہے وہ اب بند ہو جائے اور وہاں امن قائم ہو تاکہ وہاں کے عوام معمول کی زندگی گزار سکیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس مرتبہ طالبان کے رویے میں تبدیلی آئی ہے۔ ہم نے ان کے وفود سے ملاقات میں اس کو محسوس کیا ہے۔ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی شکست ایک تاریخی موقع ہے اور ہم سب کو مل کر اس کو امت مسلمہ کی تہذیبی فتح میں تبدیل کرنا چاہیے۔ افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے ایران اور پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ طالبان کی نئی حکومت کو معاشی بحران کا بھی سامنا ہے، اگر ایران اور پاکستان مل کر حمایت نہ کریں تو دشمن ممالک حالات کو خراب کرنے کی سازش کر سکتے ہیں اور افغانستان میں عدم استحکام کا پورے خطے کو نقصان ہو گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ فلسطین اور کشمیر پر ایرانی حکومت کے موقف کی تحسین کی ہے اور ایران پر عاید اقتصادی پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔ سید محمد علی حسینی نے کہا کہ ایران کا طالبان کے ساتھ اچھا تعلق ہے اور طالبان کا ایران کا حالیہ دورہ اس سلسلے میں ایک مثبت پیش رفت تھا۔ البتہ مستقل امن کے قیام کے لیے طالبان کی مستقبل میں اختیار کی جانے والی پالیسیاں اہمیت کی حامل ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ طالبان دیگر گروہوں کو اپنے ساتھ شامل کریں گے اور ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کریں گے۔ افغانستان کے سلسلے میں ایرانی اور پاکستانی حکومت کی پالیسیوں میں ہم آہنگی موجود ہے۔