مغربی تہذیب کو روکنے کیلئے ہمہ جہت کوششوں کی ضرورت ہے

407

کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) مغربی تہذیب اور اس کی بڑھتی ہوئی پش قدمی کو روکنے کے اعتبار سے ہمہ جہتی محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے، والدین ، منبر ومحراب ، نصاب تعلیم ، میڈیا اور ریاست کے مثبت کردار سے ہی مغربی تہذیب کی پیش قدمی کو روکا جا سکتا ہے ۔ مغربی تہذیب سے مرعوب ہو نا ذہنی غلامی کی عکاسی ہے،گھر وں کے ماحول کو اسلامی بنا یا جائے، بچوںاور بڑوں کے درمیان صحابہ کرام کی سیر ت کے واقعات پر تبادلہ خیال ہو، انہیں اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہو اور وہ اس پر فخر محسوس کریں کسی دوسری تہذیب سے مرعوبیت کا شکا ر نہ ہوں،،مغربی تہذیب کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر پالیسی مرتب کی جانی چاہیے ہمارا میڈیا اپنی تہذیب وتمدن کو پر موٹ کر ے اور اسلامی رسم ورواج کے مطا بق ڈرامے فلمیں اور اشتہارات بنائے توکسی حد تک ہم اپنی تہذیب وتمدن کو برقرار رکھ کر عوام کے رجحان کو تبدیل کر سکتے ہیں اسلامی تہذیب ،اسلامی معاشرہ ، اسلامی اقدار الحمدواللہ شاندار اور سنہری ہیں ہمیں یہی بات نوجوان نسل کو سمجھانے اور معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو بیدار کر کے بھر پور تحریک چلا نے کی ضرورت ہے ۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر حافظ محمد ادریس ، ا میر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ اور کراچی یو نیورسٹی شعبہ عمرانیات کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر رانا صباء سلطان صاحبہ نے جسارت سے خصوصی بات جیت کے دوران کیا ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر حافظ محمد ادریس نے کہا کہ کوئی بھی تہذیب دو سری تہذیب کا مقابلہ اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک اس کے ماننے والے اپنی ہی تہذیب پر یقین نہ رکھتے ہوں اپنی تہذیب کے مقابلے میں کسی دوسری تہذیب سے مرعوبیت کا شکا ر نہ ہوں ، دوسروں کی تہذیب سے مرعوب ہوجا نا دراصل ذہنی غلامی کی عکاسی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ انگریز کے دور میں غلامی کے دوران لو گوں نے یہ سوچ لیا کہ ہم تو کچھ بھی نہیںہم پر حکمرانی کرنے والے ہی سب کچھ ہیں حالا نکہ ایسا نہیں ہے ہماری تہذیب انسانیت کی بنیادی اقدار پر مبنی اور مستحکم ہے ہمارے مقابلے کی تہذیب بے خدا ،شیطانیت پر مبنی ہے ، وہ انسانی حقوق کے نام پر انسانی حقوق کو پامال کرنے اور انسانی آزادیوں کا قلع قمہ کرنے والی تہذیب ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسلامی تہذیب ہر ایک کو اس کا حق دیتی ہے اس میں مرد ، عورت دونوں کی حدود مقر ر ہیں دونوں کی عزت محترم ہے دونوں کو ہی اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کی آزادی ، سہولیات اور عزت واحترام ہے‘ مغربی تہذیب کا مقابلہ کر نے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین سمیت نوجوان نسل خاص طور پر گھر وں کے ماحول کو اسلامی بنا نا جائے، گھروں میں اسلامی لٹریچر کو فرو غ دیا جائے ،بچوں کی تربیت اس انداز میں کی جانی چاہے کہ انہیں اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہو اور وہ اس پر فخر محسوس کریں‘ عام فرد کو نظریاتی طریقے سے سمجھانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس کے نتائج اتنے خاص نہیں ہوںگے اس کے مقابلے میں انسان کے کردار کی مثالیں پیش کی جائیں تو اس کے نتائج زیادہ پر کشش ہوں گے ،خواتین کویہ بات باور کر انی لازمی ہے کہ اسلام میں خواتین کے حقوق کمزور نہیںہیں ، مغرب عورتوں کے حقوق کا واویلہ کر تا ہے جبکہ اس میں تو عورتوں کو مردوں کے ساتھ خود کمانے کی ترغیب دی جاتی ہے اسلام میں کمانے کی ذمہ داری مرد کی ہے اور عورت کی اپنے گھر میں حلال طریقے سے کفایت شعاری سے خرچ کرنے کی ذمہ داری ہے،لوگوں کا مجموعی کردار بھی اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے، اس کی ایک بہت واضح مثال دنیا نے دیکھی جب سنڈے ٹائم کی برطانوی صحافی ایون ریڈلی افغان مجاہدین کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں اور رہائی کے بعدانہوںنے اسلام قبول کر لیاتو کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے کس کتاب کا مطالعہ کیا اور مسلمان ہوئیں انہوںنے جواب دیا کہ مجھے جنہوں نے قید میں رکھاان کے کردار اور تہذیب کو دیکھ کر میں مسلمان ہوئی ۔ ا میر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ نے کہاکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی، یا مشرک بناتے ہیں، سب سے ا ہم کر درا بچوں کی تربیت میں والدین کا ہے اوربچے کی پہلی درس گاہ بھی اس کے والدین ہی ہوتے ہیں اگر اس مقام پر بچوں کو دینی اقدار اور بنیادی دینی تعلیم ایمان کی محنت ، اسلامی منکرات کی سوجھ بوجھ دی جائے تو یہ ایسا بنیادی سبق ہے کہ آنے والے وقت میں بچہ ہر مشکل میں ذہنی طو ر پر پہلے سے تیار ہوگا ، ہمارا تعلیمی نصاب مغربی اقوام کی دجالی تہذیب پر استوار کیا جارہا ہے ، دجالی قوتوں نے اپنے عسکری غلبے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریا ت کو مغلو ب اقوام کے نظام تعلیم میں شامل کر دیا ہے جس سے ونسل پر وان چڑھی جو غلامانہ ذہن کی عکا س ہے اور مغربی تہذیب کے اقدار کی دلدادہ بھی ہے ،مسلمانو ں کے پاس منبر ومحراب بھی ایک بہت بڑی قوت ہے اوربلا مغالبہ بغیر کسی اشتہار کروڑوں افراد تک پیغام رسانی کا کام کیا جا سکتا ہے ، اگر جمعہ کی نماز میں ایمان ، اقدار اور مغربی معاشرے کی پہچان وبرائیوں سمیت اخلاقی بگاڑ کے نتیجے میں اقوام کی تباہی پر سہل حاصل گفتگو کی جائے تو یقینا ہم مغربی تہذیب کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کا مقابلہ کر سکیں گے ۔ شجاع الدین شیخ نے کہاکہ نظام تعلیم پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے،نظام تعلیم میں ایمان ، نظریے اور دینی اقدارکی شمولیت کی کوشش کی جائے ، ریا ست ہی نظام تعلیم کو ترتیب دیتی ہے ،جبکہ میڈیا کو بھی وہی چلا تی ہے اور ریا ست ہی بہت سے ذرائع استعمال کر کے ابلا غ عامہ کے کاموں کو انجام دیتی ہے۔ کراچی یو نیورسٹی شعبہ عمرانیات کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر رانا صباء سلطان نے کہا کہ بچے ہمیشہ بڑوںکو اپنا نمونہ بنا تے ہو ئے ان کی تقلید کر تے ہیں یہ ایک قدرتی عمل ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے ،اگر ملک میں دوسرے معاشرے کی تہذیب کو پر موٹ کیا جائے تو غیر محسوس انداز میں اپنے ہی معاشرے کی تہذیب تبدیل ہو جا تی ہے،پاکستان کی مثال ہی لے لیں یہاں مغربی تہذیب کا غلبہ نظر آتا ہے ،ہما را میڈیا زیادہ تر مغربی تہذیب کو اجا گر کر تا ہے، پاکستانی معاشرے میں نئی نسل اپنی تہذیب وتمدن سے بہت دور نکل چکی ہے ،آج ہماری نوجوان نسل کا المیہ یہ ہے وہ اخلاقی اقدار ، اسلامی روایات ،مشرقی تہذیب سے دور ہو چکی ہے اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دے رہی ہے۔ خاندان کے سر براہ کی گرفت بھی بچوںپر بہت کمزور ہوگئی ہے جو معاشرے کی تباہی کی علامت ہے ، اگر ہمارا میڈیا اپنی تہذیب وتمدن کو پر موٹ کر ے اور اسلامی رسم ورواج کے مطا بق ڈرامے فلمیں اور اشتہارات بنائے جائیںتوکسی حد تک ہم اپنی تہذیب وتمدن کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور عوام کے رجحان کو تبدیل کیا جاسکتا ہے،حکومتی سطح پر سینسر بورڈ کو فعل کر دار ادا کر نے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی تہذیب سے ہٹ کر کو ئی بھی ایسا مواد نشر نہ کیا جا سکے جس سے اسلامی اقدار پر زیق پہنچے ، معاشرے میں مغربی تہذیب کی پیش قدمی کو روکنے کا صرف واحد راستہ یہ ہے کہ ریاستی سطح پر میڈیا کو کنٹرول کر لیا جائے تو آپ معاشرے میں واضح تبدیلی دیکھیں گے ۔