از خود نوٹس کا مروجہ طریقہ کار ختم ہوا تو پورا عدالتی نظام منہدم ہوجائے گا،عدالت عظمیٰ

266

اسلام آباد (خبرایجنسیاں )عدالت عظمیٰ میں از خود نوٹس کے استعمال کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران 5رکنی لارجربینچ کے سربراہ قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ازخود نوٹس اختیار کے استعمال کے مروجہ اسٹرکچر میں سقم ہے تو اسے ٹھیک کریں گے لیکن اسے گرنے نہیں دیں گے۔ فاضل جج نے کہا کہ ازخود نوٹس اختیارکب ،کیسے اور کون استعمال کرسکتا ہے اس کا طریقہ کار موجود ہے ،اس طریقہ کار کو ختم نہیں کرسکتے،مروجہ طریقہ کار ختم ہوا تو پورا عدالتی نظام منہدم ہوجائے گا۔دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ 20 اگست کو دو رکنی بینچ کی طرف سے ازخود نوٹس اختیار کا استعمال ماضی کے عدالتی نظائر سے مکمل انحراف ہے۔انہوںنے تجویذ دی کہ بینچ کی تشکیل کی حد تک 2 رکنی بینچ کے آرڈر میں تبدیلی کرے جبکہ مستقبل کے لیے ازخود نوٹس اختیار کے استعمال کے لیے قرار دیا جائے کہ مفاد عامہ کا کوئی ایشو سامنے آنے پر چیف جسٹس پہلے معاملہ 2 رکنی بینچ کے سامنے رکھے گا اور اگر بینچ سمجھے کہ معاملہ واقعی مفاد عامہ کا ہے تو بینچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس کے پاس واپس جائے گا اور باقاعدہ سماعت کے لیے کم ازکم 5رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔جسٹس قاضی محمد آمین احمد نے استفسار کیا کہ عدالت کا وقار،احترام اور اتحاد سب اہم اور کلیدی معاملہ ہے کیا زیر غور کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں ان 2 ججوں کا شامل نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے 20 اگست کو آرڈر پاس کیا۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا 2 رکنی بینچ کے آرڈر میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن آرڈر سے کچھ مشکلات تھیں آئین جس کا تدارک ضرروی تھا۔ہمارے بینچ کا مقصد جسٹس قاضی فائز کے حکم کا جائزہ لینا نہیں،جسٹس فائز کے 2 رکنی بینچ کا حکم عدالتی حکم ہے،مانیٹرنگ یا متوازی بینچ کا تاثر غلط ہے،ہم یہاں آئین کے تحفظ کیلیے ہیں اور نظام انصاف آئین کے مطابق چلانا ہے،طے شدہ طریقہ کار سے ہٹنے سے عدالتی نظام تباہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیزوں کو تباہ کرنا آسان ہے لیکن بنتی بہت مشکل سے ہیں،اگر کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا تو نظام نہیں چل سکتا،جسٹس قاضی کے 20 اگست کے حکم میں کوالٹی ہے،یہ حکمنامہ مفاد عامہ کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو مدنظر رکھ کر دیا گیا،لیکن اس کے دوسرے مرحلے میں عدالت عظمیٰ کے قواعد کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جبکہ عدالت نے کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی ۔دوسر ی جانب جسٹس فائز عیسیٰ نے ازخودنوٹس کے دائرہ اختیار اور تعین کے لیے قائم بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اپنے 15 صفحات پر مشتمل اوپن خط میں موقف اپنایا ہے کہ 5رکنی لارجر بینچ بنانے سے قبل 2 رکنی بینچ کو آگاہ نہیں کیا گیا،آئین میں عدالت عظمیٰکے مختلف دائرہ اختیار سماعت درج ہیں،اعلیٰ عدلیہ کا ایسا کوئی دائرہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے ہی بینچ کے امور کی مانیٹرنگ شروع کردے،5 رکنی معزز بینچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں،اگر 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے تجاوز ہوگا،کوئی بھی شہری معلومات تک رسائی یا اظہار رائے کی آزادی کی بات کر سکتا ہے،میرے بینچ نے حکومتی حکام کو جو اعتراض کیے ان پر کسی حکومتی فریق نے اعتراض نہیں کیا،اگر کوئی اعتراض اٹھایا جاتا تو ان کوسنا جاتا،رجسٹرار عدالت عظمیٰ جو سرکاری ملازم ہے وہ بلاشبہ خود کو ایک منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے، رجسٹرار نے فوری طور پر نوٹس لیا اور 6 صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا،ایک بینچ کا دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ کرنا غیرآئینی ہے،ہر چیف جسٹس، قائم مقام چیف جسٹس یا جج حلف کے تحت اپنے امور آئین کے تحت سرانجام دینے کا پابند ہے،اگر ایک بینچ دوسرے بینچ کی مانیٹرنگ شروع کردے تو اس سے نظام عدل زمین بوس ہو جائے گا،ماضی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران بینچ میں موجود اپنے ہی جج کو نکال کر نیا بینچ تشکیل دیا،جسٹس منصور علی شاہ نے بعد میں الگ حکم نامہ جاری کیا،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس معاملے پر تاحال غور نہیں کیا گیا،ماضی کے ایسے عدالتی آرڈر پر توجہ نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ چیف جسٹس کی خواہش ہے کہ وہ بے لگام اور بلا روک ٹوک اختیارات کو اپنے پاس رکھیں،چیف جسٹس یہ تعین نہیں کر سکتے کہ کون سا کیس کس بینچ میں مقرر ہوگا۔پاکستان کا ہر شہری آزادی صحافت کے لیے اسٹیک ہولڈر ہے،جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں استدعا کی ہے کہ ان کے خط کی کاپی عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے۔