بہت طویل تھا یہ دن مگر گزر تو گیا

487

۔7 اگست 1995ء سورج اُبھرا تو ہمارے گھرانے پر اِک قیامت ٹوٹ پڑی۔ رات میری طبیعت ناساز تھی اس لیے ادویات کی وجہ سے نیند کا غلبہ رہا اور یوں نمازِ فجر میں بیدار نہ ہوسکا، پھر ایسا لگا کہ کوئی مجھے آوازیں دے رہا ہے۔ آنکھیں کھولیں تو چھوٹی بہن ریحانہ آبدیدہ کھڑی تھی، کہنے لگی کے نیچے بلا رہے ہیں، میں تمام تر نیند کے خمار کے باوجود اُٹھ بیٹھا اور بنا چپل پہنے تیزی سے نیچے کی طرف دوڑا۔ ڈرائنگ روم میں والدہ، والد اور بڑے بھائی بیٹھے تھے۔ ٹیلی فون کا ریسیور بڑے بھائی صلاح الدین کے کانوں سے لگا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے ریسیور میری طرف بڑھا دیا تو فون کی دوسری جانب سے میرے بھائی راشد جمال کے سسر یہ کہہ رہے تھے کہ بھیا اللہ کا حکم تھا اب تم لوگ جیسا کہو ویسا کرلیتے ہیں۔ میں نے معاملے کو سمجھنے کے لیے پوچھا کیا ہوا تھا۔ وہ بولے بھیا رات کو بالکل ٹھیک سویا تھا صبح کو اس کا ہاتھ چارپائی سے نیچے لٹکا ہوا تھا، اسے اوپر رکھا مگر وہ پھر گر گیا، جلدی سے جسم کو ٹٹولا تو کوئی حرکت نہ تھی گھر میں ایک کہرام مچ گیا کوئی ڈاکٹر کو بلا لایا۔ اس نے آکر معائنہ کیا اور کہا کہ موت کو کافی دیر ہوچکی، میں نے بڑے تحمل سے ان کی یہ باتیں سنی اور پھر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ والد اور بڑے بھائی سسکیاں لے رہے تھے، والدہ تمام حالات سے بے خبر معاملے کی نوعیت کو جاننا چاہتی تھیں۔ کوئی ان کی طرف متوجہ نہ تھا، میں بھی حزن و ملال سے دوچار صوفے پر بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔ ماں جی میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھ سے پوچھا کیا ہوا مجھے بھی تو کچھ بتائو۔ میں نے کہا راشد بھائی ہم میں نہیں رہے، جسے سن کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، وہ حیران و ششدر منہ کھولے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ شاید ان کی سمجھ میں اب بھی معاملے کی اصل نوعیت نہ آسکی تھی۔
مجھے رہ رہ کر رات کے واقعات یاد آنے لگے۔ رات ساڑھے نو بجے کے قریب راشد بھائی سے فون پر بات ہوئی تھی، بڑی تفصیلی گفتگو تھی جو قریباً 20 منٹ تک جاری رہی۔ چوں کہ 5 اگست کو ہمارے علاقے کا گھیرائو کرکے فوج اور پولیس نے گھر گھر اسلحہ کی تلاشی لی تھی۔ اور رات گئے تک مکینوں کو گھروں میں محصور رکھا گیا تھا، اس لیے ہم نے ان سے کہا تھا کہ ابھی نہ آئیں وہ اپنے بچوں کو لینے چند روز قبل اوکاڑہ گئے تھے، اس زمانے میں کاٹن کے سوٹ پنجاب کی طرف سے ہی آتے تھے۔ ہم بھائیوں نے اپنے پسندیدہ رنگ کے سوٹ لانے کی فرمائش کی تھی۔ فون پر وہ بتا رہے تھے کہ ہر ایک کی پسند کا رنگ تو نہیں مل رہا مگر جو سوٹ میں نے منتخب کیے ہیں آپ سب کو بہت پسند آئیں گے۔ پھر میں نے انہیں بتایا تھا کہ علاقہ کھل گیا ہے وہ کل ہی بکنگ کرائیں وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر میں نے خیالات کے تسلسل کو توڑتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ تینوں چھوٹے بھائی بھی آکر بیٹھ چکے تھے۔ والد صاحب بولے تم اپنے چچا اور بہنوئیوں کے ہمراہ اوکاڑہ چلے جائو اور وہیں دفنا دو۔ اس پر میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم میت کو کراچی بھی لاسکتے ہیں، جس پر دوسرے بھائیوں نے کہا یہ زیادہ بہتر رہے گا۔ باقی رشتے داروں نے بھی میری رائے سے اتفاق کیا۔ پھر ایدھی ائر ایمبولینس سے رابطہ کیا گیا۔ چھوٹا طیارہ صبح 9 بجے کراچی سے روانہ ہوا۔ شام پانچ بجے طیارہ میت لے کر کراچی ائر پورٹ اترا۔ راشد بھائی کی اچانک موت کی اطلاع صبح سوا چھ بجے موصول ہوچکی تھی اور ان کی تدفین بعد نماز مغرب ہوئی۔ اس لیے دور نزدیک کے تمام ہی رشتہ دار اور دوست احباب جمع ہوگئے تھے۔ جس وقت ان کی موت ہوئی ان کی بڑی بیٹی کی عمر چھ برس بھی نہ تھی۔ آج وہ صاحب اولاد ہے۔ اور رہا بڑا بیٹا تو اس کی بھی ڈیڑھ سال قبل شادی ہوچکی اور الحمدللہ وہ بھی ایک بیٹی کا باپ ہے۔ میرے دونوں بھتیجے بھائی سے خاصی مشابہت رکھتے ہیں۔
راشد بھائی کی تدفین کے ایک ہفتے بعد یہ خیال آیا کہ لوگ تعزیت کو ہمارے پاس آتے رہے۔ اوکاڑہ سے بھی بہت سے رشتے دار آئے کیوں کہ ہم بھی ایک بار اوکاڑہ جائیں کہ جہاں ہمارے بھائی کا انتقال ہوا وہیں ان کا داماد بھی تو جدا ہوگیا اور ان کی بیٹی بیوہ ہوئی ہے۔ اس لیے میں اور بڑے بھائی اپنے دونوں بہنوئیوں کے ہمراہ اوکاڑہ گئے اور بھائی کے سسرال والوں سے ان کے داماد کی وفات پر تعزیت کی اور ساتھ ہی ان دکانوں پر بھی گئے جن سے لین دین ہوا تھا۔ ہر ایک سے پوچھا کہ کسی کا حساب کتاب تو باقی نہیں مگر ہر ایک نے نفی میں جواب دیا۔ راشد بھائی کا کراچی میں لیدر گارمنٹ کا کام تھا، اس لیے خیال پیدا ہوا کہ یہاں بھی کسی کا لین دین نہ ہو۔ ہم نے پینو راما سینٹر جا کر یہ اعلان کیا کہ کسی کا بھی لین دین ہو تو ہم دکان پر موجود ہیں آکر حساب کرلے۔ اس عرصے میں کئی لوگ آئے اور اپنے حسابات دکھا کر ہم سے مطلوبہ رقم وصول کرتے رہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ آیا جو یہ کہتا کہ راشد بھائی کی رقم اس کی طرف واجب الادا ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ اک روز معلوم ہوا کہ ایک دکان دار کے پاس راشد بھائی نے بی سی ڈالی تھی۔ جب ہم اس کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ 26000 روپے وصول کرنے ہیں۔ پہلے تو وہ ٹالتا رہا اور پھر کہنے لگا جس کے پیسے ہیں اسی کو دوں گا۔ ہم مایوس لوٹ آئے، اس کا بہترین کاروبار تھا جو خوب چلتا تھا مگر پھر رفتہ رفتہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ کوئی بارہ سال قبل اس کا جوان بیٹا مر گیا، لیدر کارخانے کا مالک مارکیٹ میں چائے بیچنے لگا، چند سال پہلے وہ میرے چھوٹے بھائی کے پاس آیا جو اب لیدر گارمنٹس کا کارخانہ چلاتے ہیں۔ کہنے لگا کہ میرے حالات دیکھ رہے ہو میں لٹ چکا تباہ و برباد ہوچکا وہ تمہارے بھائی کی کچھ رقم تھی اگر معاف کردو تو۔
میرے بھائی نے کہا 20 سال قبل میں تمہارے پاس گیا تھا جو جواب تم نے دیا تھا وہی آج میرا ہے یعنی جس کی رقم تھی اسی سے معاف کرالو۔ راشد بھائی کی موت کو آج 26 سال گزر چکے مگر 7 اگست کے دن کے تمام واقعات آج بھی مجھے یاد ہیں اور وہ دن کس قدر وسیع ہوگیا تھا۔ بقول شاعر
میرے تھکے ہوئے شانوں سے بوجھ اتر تو گیا
بہت طویل تھا یہ دن مگر گزر تو گیا