منور حسن جہد مسلسل اور مزاحمت کا استعارہ تھے ،افغان مسئلے پر ان کا بیانیہ جیت گیا،سراج الحق

670
کراچی:امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ، اسد اللہ بھٹو، محمد حسین محنتی،محمد اصغر درس ،حافظ نعیم الرحمن،اسامہ رضی،شفیع نقی جامی،مظہر عباس اور سعید عثمانی تاسیسی اجتماع بیاد سید منور حسن سے خطاب کررہے ہیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر) امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ایک پر امن اور اسلامی افغانستان پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کی ضرورت ہے ،افغانستان میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد جاری رہنی چاہیے ،افغان طالبان اور پرانے مجاہدین مل کر مضبوط اور مستحکم حکومت بنائیں ،ہماری حکومت طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں تذبذب کا شکار اور امریکہ و برطانیہ کی طرف دیکھ رہی ہے ،وہاں موجود زمینی حقائق اور جمہورکی آواز کو تسلیم نہ کرنا بڑا ظلم اور اسے دوبارہ غیر مستحکم کرنا ہوگا ،عرب ممالک سمیت عالم اسلام افغانستان میں طالبان کو تسلیم کرے،جماعت اسلامی دوسری جماعتوں کی طرح کوئی جماعت نہیں بلکہ ایک نظریاتی جماعت اور اقامت دین کی تحریک ہے ،سید مودودیؒنے 80سال قبل اس کی بنیاد رکھی اور اسی بنیاداور مقصد کے تحت جدوجہد جاری ہے ،سید منور حسن ایک فرد نہیں بلکہ جہد مسلسل تھے ،صبح شام تحریک و تحرک اور مزاحمت کا استعارہ تھے جنہوں نے ساری زندگی سا دگی میں گزاری ،ہمیں عہد کرنا ہے کہ اپنی ساری زندگی ،مال وقت اور تمام تر صلاحیتیں تحریک میں لگائیں گے اور زندگی کے آخری لمحے اور خون کے آخری قطرے تک اقامت دین کی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں اتوار کی شب جماعت اسلامی کراچی کے تحت عید گاہ گرائونڈ ناظم آباد میں ایک بہت بڑے اور عظیم الشان اجتماع عام بسلسلہ تاسیس جماعت اسلامی و بیاد سید منور حسن سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اجتماع سے مرکزی نائب امیر اسد اللہ بھٹو،امیر صوبہ سندھ محمد حسین محنتی ،مرکزی ڈپٹی سیکریٹری محمد اصغر ،امیر کراچی حافظ نعیم الرحمن ،سینئرصحافی ،تجزیہ وکالم نگار مظہر عباس ،سید منور حسن کے انتہائی قریبی رفقاء ،پروفیسر سعید عثمانی،شفیع نقی جامعی اور نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے بھی خطاب کیا ۔ اجتماع میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد سمیت ہزاروں مردوخواتین نے شرکت کی ۔سراج الحق نے اپنی تقریر کے اختتام پر شرکاء سے جماعت اسلامی کے مقصد اور جدوجہد کے حوالے سے حلف بھی لیا اور شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر عہد اور عزم کا اظہار کیا ۔سراج الحق نے کہا کہ کراچی منی پاکستان اور عالم اسلام کا اہم شہر ہے ،ہمارا عزم اور عہد ہے کہ اسے تنہا نہیں ہونے دیں گے ،اسے سنواریں گے اور امن و محبت کا گہوارہ اور اسلام کا قلعہ بنائیں گے ،یہاں کے گھمبیر مسائل کے حل کی جدوجہد اور عوامی خدمات جاری رکھیں گے ،انہوں نے کہا کہ مینار پاکستان تحریک پاکستان کی علامت ہے،ایک خاتون کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سب کے لیے شرم کا مقام ہے ،بدقسمتی سے ملک کے نظام اور میڈیا کے ذریعے فروغ دیئے جانے والے کلچرنے نوجوانوں کو بے مقصدیت،عریانی اور فحاشی میں مبتلا کرکے ان کے اخلاق و کردارکو تباہ کردیا ہے ،اس شرمناک واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔سراج الحق نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی طویل جدوجہد اور شہداء کی قربانیاں اسلامی نظام شریعت کے نفاذکے لئے ہیں، ملک میں دوسال میں الیکشن ہوئے اور دنیا نے دیکھا کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے صدارت کا حلف اٹھایا ،ان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین اور بچیوں کو تعلیم سمیت شریعت کے عطا کردہ تمام حقوق دیں گے ۔سراج الحق نے کہا کہ جس طرح جماعت اسلامی ایک خوشبو اور روشنی ہے اسے ختم اور قید نہیں کیا جاسکتا اسی طرح سید منور حسن روشنی اور خوشبو تھے ۔سیدمودودی ؒکی تحریک کا ایک انمول ہیرا تھے ،سید مودودیؒ نے ہمیں قاضی حسین احمد ،پروفیسر غفور ،پروفیسر خورشید ،میاں طفیل محمد جیسے ہیرے اور لعل دیئے،مودودی صاحب سے میں کبھی نہیں ملا ،میاں صاحب سے بھی کبھی نہیں ملا لیکن قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ان کے ساتھ وقت گزارا ان دونوں نے ہمیشہ باپ کی شفقت ،ماں کی محبت اور بھائی کی طرح پیار دیا ،ان کی دعائیں آج بھی میرے ساتھ ہیں ،امیر بننے کے بعد میں نے منور حسن صاحب سے کہا میں جماعت اسلامی کا امیر ہوں اور میرے امیر آپ ہوں گے ،سید منور حسن نے مارکس اور لینن کو بھی پڑھا اور سید مودودیؒکے لٹریچر کو بھی پڑھا ،قرآن و حدیث کا بھی مطالعہ کیا ،اسی لٹریچر اور مطالعے نے ان کے دل کو فتح کیا اور پھر وہ ساری زندگی اسی سوچ اور فکر پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے ۔اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ سید منور حسن نے جس مقصد اور نصب العین کو دل سے قبول کیا اور تحریک کا حصہ بنے تو پھر اسی تحریک کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا،حق گوئی ان کی شخصیت میں رچی بسی ہوئی تھی ،اطاعت نظم اور اجتماعیت کے یقین کی طرح پابند رہے ،ہمیں بھی عہد کرنا چاہیے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں گے ۔ محمد حسین محنتی نے کہا کہ انہوں نے ثابت کیا اور بتایا کہ اللہ کے احکامات اور دین کے مطابق زندگی کو کس طرح گزارا اور کھپایا جاتا ہے ،انہوں نے اللہ کے لیے جینا اور مرنا سکھایا ،وہ تحریک اقامت دین اور جماعت اسلامی کی جیتی جاگتی تصویر تھے ،سید مودودیؒکی سوچ اور فکر کو میدان عمل میں اتر کر پورا کرکے دکھایا ،ان کے اندر جذبہ ،لگن اور خلوص بدرجہ اتم موجود تھا ،اس گلے سڑے نظام کو چیلنج کرنے میں وہ سب سے آگے تھے ،باطل اور طاغوت کے خلاف جدوجہد ان کی زندگی کا مقصد تھا ،ان کی وفات سے ہم ایک بہت بڑے اور قیمتی انسان سے محروم ہوگئے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ آج حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ ہار گیا اور سید منور حسن کا بیانیہ جیت گیا ہے ،جماعت اسلامی ایک دستور اور نظام کے تحت جدوجہد کررہی ہے اور کرتی رہے گی ،سید منور حسن ہمیشہ جماعت اسلامی کا وژن ہی بیان کرتے تھے اور اسی کو لے کر چلتے تھے ،اختلافات کے باوجود اجتماعیت پر یقین رکھتے اور اس کی مضبوطی کا باعث بنتے تھے ،وہ مصلحت و حکمت اور بزدلی کے مفہوم اور فرق سے بہت اچھی طرح واقف تھے ،راستے نکالنا اور ڈٹ جانا ،کہاں راستہ نکالنا اور کہاں ڈٹ جاناہے وہ خوب جانتے تھے ، انہوں نے امریکہ کی جنگ میں شامل ہونے کی سخت مخالفت اور تنقید کی تھی ،آج دنیا نے دیکھا کہ ان کا بیانیہ درست ثابت ہوا ،امریکہ سمیت 40ملکوں کی فوج افغانستان میں شکست کھاگئی ،وہ ایک پکے سچے نظریاتی اور متقی شخص تھے ،قرآن وحدیث ،دور حاضر کے دیگر علوم ،سامراجیت اور طاغوت کی حقیقت سے واقف تھے،اللہ کے احکامات کے تحت زندگی گزارنا نہایت آسان ہے انہوں نے دنیا میں کرکے دکھایا ۔محمد اصغرنے کہا کہ سید منور حسن کی سوچ اور فکر کا مرکز و محور صرف اور صرف جماعت اسلامی اور سید مودودیؒ کی فکر اور سوچ تھی ،وہ جماعت اسلامی کی ترجمانی کرتے تھے ،انہوں نے بہت سے اتار چڑھائو دیکھے اور آمریتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ،گو امریکہ گو تحریک چلائی ،ہمارا فرض ہے کہ جماعت اسلامی کی دعوت اور پیغام کو عام کریں ،جماعت اسلامی نے ہی ملک کو اسلامی بیانیہ دیا ہے اور جماعت اسلامی ہی اس ملک کو ایک اسلامی اور ترقی یافتہ و خوشحال پاکستان بناسکتی ہے ۔ شفیع نقی جامعی نے کہا کہ سیدمنور حسن اگر میر ی زندگی میں نہ ہوتے تو میں شاید وہ نہ ہوتا جو آج ہوں ،انہوں نے حقیقتاََمیری زندگی کا قبلہ درست کیا ،مجھے برطانیہ بھی انہوں نے بھیجا ،میں وہاں پڑھنے گیا تھا مگر پردیس کا ہوکر رہ گیا ،ظالم اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا میں نے ان ہی سیکھا ہے ،وہ ایک بہترین مقرر،محقق،خطیب ،ایمان اور ایقان کی پختگی والے انسان تھے ،آج ان کو یاد کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔مظہر عباس نے کہا کہ آج میں یہاں صرف سید منور حسن کی ذات اور شخصیت کی وجہ سے آیا ہوں ،ہمارے درمیان شدیدنظریاتی اختلاف رہا ہے لیکن ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں ،ذاتی طور پر ان کو قریب سے دیکھا ہے ،وہ ایک مختلف اور دوسری طرح کے انسان تھے ،ان کی وفات سے یقیناََجماعت اسلامی کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے ،سیاست سے مزاحمت ختم ہوجائے تو مصلحت تو کوئی بھی کرسکتا ہے وہ ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے اندر بھی اور باہر بھی ،وہ کہتے تھے کہ سوویت یونین کے ختم ہونے سے نظریاتی سیاست ختم ہوگئی ہے اب بائیں بازو کو کوئی نیا بیانیہ لے کر آنا ہوگا ،آج جمہوریت یرغمال ہے ایک طرف جمہوریت اور دوسری طرف طاقت سے تبدیلی لانے والے لوگ ہیں ، ملک میں کنٹرولڈڈیموکریسی کی سوچ پختہ ہورہی ہے ،پہلے سیاسی خلا سیاسی جماعتیں لیکن اب خلا ئی محلوق پر کرتی ہے،جماعت اسلامی یقیناََدوسری جماعتوں سے مختلف اور جمہوریت پر یقین رکھتی ہے ،فکر و عمل کے دائرے میں آج بھی بہت سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے ۔پروفیسر سعید عثمانی نے کہا کہ یہ چند دنوں کی بات نہیںبلکہ نصف صدی کا قصہ ہے ،1961میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی ،درمیان میں بہت نشیب وفراز آئے لیکن زندگی کے آخری لمحے تک جب تک وہ ہوش میں رہے ان سے میرا رابطہ اور تعلق برقرار رہا ،سادہ نفسی ،سادگی ،تقوی و عمل ،دنیا داری سے دوری ان کی گھٹی میں شامل تھی ،ان کی زندگی کی سادگی اور تقوی وپرہیزگاری کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،تنظیمی صلاحیتوں اور اصولوں پر کوئی رعایت نہ کرنا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا ،انہوں نے جمعیت کے دور میں اعلان تاشقند کے خلاف آواز بلند کی ،مالی حیثیت کو بہتر بنانے کی ہر ترغیب کو ہمیشہ رد کیا اور طے کیا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ رہتے ہوئے ہی ساری زندگی بسر کروں گا ۔