عالمی برادری ہندوستان پر ذمہ داری کے مظاہرہ کیلئے زور دے، شاہ محمود قریشی

291

اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نئی دلی، پرانی سوچ کو ترک کر دے، عالمی برادری بھارت پر زور دے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزارتِ خارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے میں میڈیا نمائندگان کو وزارت آمد پر خوش آمدید کہتا ہوں، پچھلے 48 گھنٹوں میں میری کئی وزرائے خارجہ کے ساتھ بات چیت ہوئی، جرمنی، کوریا، چین، ہالینڈ، ڈنمارک، ترکی، برطانیہ، روس، سویڈن کے وزرائے خارجہ سے گفتگو ہوئی، میری سیکرٹری جنرل او آئی سی اور یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل کے ساتھ بھی گفتگو ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ جدہ میں افغانستان کے حوالے سے او آئی سی ایگزیکٹو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے، آج میری سعودی وزیر خارجہ سے بات ہوئی، سعودی وزیر خارجہ نے کابل سے اپنے سفارتی عملے کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے بات کی، کابل میں واپسی کے منتظر مختلف ممالک کے سفارتی عملے، بین الاقوامی اداروں کے اہلکاروں اور میڈیا نمائندگان کے انخلا کے لیے پاکستان ہرممکن معاونت فراہم کررہا ہے، ہماری ان کاوشوں کو وسیع پیمانے پر سراہا جارہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کابل میں ہمارا سفارت خانہ مسلسل لوگوں کی معاونت کر رہا ہے، ہماری ایمبیسی ویزوں کا اجرا کر رہی ہے اور پاکستان آمد پر ویزہ کی سہولت بھی دی جارہی ہے، ہم نے انخلا آپریشن سیل قائم کر دیا ہے جو 16 اگست سے آپریشنل ہے، اس سیل میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، ایف آئی اے، اسلام آباد پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کے نمایندگان موجود ہیں، وزارت خارجہ میں کرائسس مینجمنٹ یونٹ قائم کر دیا گیا ہے جو دن رات کام کر رہا ہے۔

پاکستان، کابل سے مختلف ممالک کے 3234 باشندوں کو بحفاظت نکال چکا ہے ، جن میں 333 لوگ پاکستانی شہریت کے حامل تھے، مجھے خوشی ہے کہ ہماری کاوشوں کو سراہا جا رہا ہے، کابل میں بہت کم سفارت خانے کام کر رہے ہیں میری اطلاعات کے مطابق پاکستان سمیت 5 سفارت خانے کابل میں فنکشنل ہیں ، میری گذشتہ چند دنوں میں جتنے وزرائے خارجہ سے بات چیت ہوئی ۔ ہمارے نکتہ نظر میں ہم آہنگی دکھائی دی۔

انہوں نے کہا کہ آج میں تاجکستان، ازبکستان ترکمانستان اور ایران کے دورے پر روانہ ہو رہا ہوں، چین کے وزیر خارجہ کے ساتھ میرا تفصیلی تبادلہ خیال ہوچکا ہے، میرے دورے کا مقصد افغانستان کی موجودہ صورتحال اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے متفقہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہے، ان میں کرونا کی صورتحال، بارڈر سیکورٹی، مہاجرین کی آمد جیسے چیلنجز شامل ہیں، علاقائی روابط کے فروغ کیلئے بھی ان سے مشاورت کی جائے گی۔

افغانستان میں قیام امن ایک مشترکہ زمہ داری ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ متفقہ لائحہ عمل، مشاورت کے بعد اپنایا جائے، طالبان نے واضح کیا ہے کہ وہ افغان سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے، ٹی ٹی پی نے پاکستان کے خلاف افعان سرزمین استعمال کی ہے لہذا ہمارے تحفظات میں وزن ہے ، افغانستان میں انکلوئسو حکومت سازی کیلئے مذاکرات اور بات چیت ہو رہی ہے، طالبان کی جانب سے سامنے آنے والے حالیہ بیانات حوصلہ افزا ہیں ، انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا ۔ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ افیون کی کاشت نہیں ہونے دیں گے ، پاکستان کی خواہش ہے کہ عالمی برادری افغانستان کے ساتھ اپنے روابط بحال رکھے، روابط تو پہلے سے ہیں مگر ہم ان کا تسلسل ضروری ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ افغانوں نے بھاری قیمت ادا کی ہے ہم چاہتے ہیں کہ وہاں دیرپا امن ہو ، ہم ہمیشہ کہتے رہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر امن مخالف “اسپائیلرز” موجود ہیں ، آپ کے علم میں ہے کہ اس وقت خاموشی کہاں چھائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں “نئی دلی، پرانی سوچ کو ترک کر دے، عالمی برادری بھارت پر زور دے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، ہندوستان کے میڈیا کے مطابق میں کل کابل پہنچ چکا تھا” جبکہ حقیقت میں، میں پاکستان میں تھا، غلط خبروں سے بھارت کی اپنی ساکھ متاثر ہو رہی ہے، افغانستان میں قیام امن سے بھارت کو بھی فائدہ ہوگا، میری سیکرٹری آف اسٹیٹ سے تین دفعہ رابطہ ہو چکا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سیکرٹری آف اسٹیٹ کو امریکی حکومت نے فوکل پرسن بنایا ہے ان کے ساتھ ہم رابطے میں ہیں، امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات خوشگوار ہیں، ہمارا مقصد ایک ہے، ہم دعاگو ہیں کہ پنجشیر میں حالات نہ بگڑیں، افعان قیادت کو ذمہ داری سے آگے بڑھنا ہوگا، اندرونی انتشار افغانوں کے مفاد میں نہیں ہے، دونوں جانب سے بیانات مثبت دکھائی دے رہے ہیں، دونوں جانب سے گفتگو ذمہ دارانہ ہو رہی ہے، افغان عوام کو پتا چل جانا چاہیے کہ پاکستان ان کی بہتری کا خواہاں ہے۔