یہ بات 1960ء کی دہائی کی ہے، تب سوئی گیس نہیں آئی تھی۔ ایندھن کے طور پر استعمال کے لیے گھروں میں لکڑیاں لائی جاتی تھیں۔ ہم بچے ایسی لکڑیاں جن کی شکلیں ہاکیوں سے ملا کرتیں، چن لیا کرتے۔ پھر گرمی دیکھتے نہ سردی، اسکول سے چھٹی کے بعد زیادہ تر وقت ان ڈنڈوں سے ہاکی کھیلی جاتی۔ غیرتعمیر شدہ پلاٹوں کو میدان کے طور پر استعمال کیا جاتا۔ گول کے پولوں کے تعین کے لیے بڑے پتھر یا اینٹیں استعمال کی جاتیں۔ شہر کے دوسرے محلوں کی ٹیموں سے باقاعدہ میچ ہوتے۔ یہ نہیں کہ کرکٹ نہیں کھیلی جاتی تھی۔ بہرحال ملک بھر میں ہاکی زیادہ مقبول تھی۔ اس کی معقول وجہ یہ تھی کہ معرضِ وجود میں آنے کے بعد 1948ء میں پہلی مرتبہ لندن میں منعقد ہونے والے اولمپکس کھیلوں میں پاکستان نے علی اقتدار شاہ دارا کی قیادت میں حصہ لیا۔ یہ تجربہ کار ٹیموں، سات میں سے چار کے خلاف اس کی برتری تھی۔ دو میں شکست ہوئی، ایک میں مقابلہ برابر رہا۔ 1956ء میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں پاکستان نے پانچ میں سے تین مقابلوں میں کامیابی حاصل کی۔ دو میں ایک جو بھارت کے خلاف کھیلا وہ برابر رہا۔ جبکہ فائنل بھی پاکستان اور بھارت کے مابین ہوا۔ گو فائنل بھارت جیتا مگر ظاہر ہے، پاکستان نے دوسرے نمبر پہ آتے ہوئے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ کپتان بریگیڈیر حمیدی اور نصیر بندہ تین تین گولوں کے ساتھ نمایاں تھے۔ پھر آتے ہیں 1960ء کے اولمپکس۔ اس سال روم میں اولمپکس منعقد ہوئے۔ اس بار بھی بریگیڈیر حمیدی ہی کی قیادت میں پاکستان ہاکی ٹیم نے حصہ لیا۔ پاکستان نے کل آٹھ میں سے آٹھ میں کامیابی حاصل کی۔ فائنل میں بھارت کو 1-0 سے ہرا کر پہلی مرتبہ اولمپک مقابلوں میں فتح حاصل کی۔ معاشی مسائل سے دوچار لیکن جذبۂ ایمانی سے سرشار وطن عزیز میں خوشیوں بھرا کرنٹ دوڑ گیا۔ ہر سمت ہاکی، ہاکی ہونے لگی۔ ہر ہائی اسکول اور کالج کی اپنی ٹیم بنی۔ اسکولوں اور کالجوں کے ہاکی ٹورنامنٹ ہوتے تو پورا شہر میچ دیکھنے کے لیے امڈ آتا۔ اور جانتے ہیں پاکستان میں ہاکی کا صدر مقام کون سا شہر ٹھیرا؟ یہ تھا اس وقت کے لائل پور اور آج کے فیصل آباد کے نزدیک ایک قصبہ گوجرہ۔ جی ہاں! گو کہ گوجرہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا لیکن سب سے زیادہ ہاکی کے نامور کھلاڑی اسی قصبہ نے پیدا کیے۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہاں کے امراء کی اس کھیل سے محبت تھی۔ وہ ٹرکوں میں ہاکیاں رکھ کر قصبہ بھر کے بچوں میں مفت تقسیم کیا کرتے۔ 1964ء کے اولمپکس ٹوکیو میں منعقد ہوئے۔ پاکستان ہاکی ٹیم نے بریگیڈیر عاطف کی سرکردگی میں شرکت کی۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کے کل سات مقابلے ہوئے۔ پانچ میں پاکستان فاتح رہا۔ ایک برابر، جبکہ ایک جو فائنل تھا اس میں بھارت سے ہارا۔ یہ ایک اعصاب شکن مقابلہ تھا۔ بھارت کی کامیابی کا تناسب 1-0 رہا۔
یہ 1972ء کے میونخ میں منعقد ہونے والے اولمپکس تھے، جس میں پاکستانی ہاکی ٹیم بدقسمتی سے دوچار ہوئی۔ کل نو مقابلوں میں پاکستان نے ارجنٹائن، یوگنڈا، ملائشیا، بلجیم کے علاوہ اپنے روایتی حریف بھارت کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ تاہم اسپین سے اس کا مقابلہ برابر رہا۔ فائنل پاکستان جرمنی سے کھیلا۔ اس میں ریفری کی جرمنی کے حق میں بارہا جانبداری دیکھنے میں آئی۔ جرمنی جیت گیا۔ پاکستان کے کھلاڑیوں نے شکست قبول کرنے سے باڈی لینگویج کی وساطت سے انکار کردیا۔ اس کا مظاہرہ انہوں نے چاندی کے ملنے والے میڈل کو پائوں میں پہن کر کیا۔ تب ہی ایک قضیہ کھڑا ہوگیا۔ نتیجتاً پاکستان ہاکی ٹیم پہ کچھ عرصہ کے لیے پابندی لگ گئی۔ 1976ء میں مانٹریال میں ہونے والے اولمپکس میں پہلی مرتبہ آسٹرو ٹرف کو متعارف کروایا گیا۔ آسٹرو ٹرف کے استعمال نے پاکستان اور بھارت پہ جو ایک لمبے عرصے سے ہاکی کے بے تاج بادشاہ رہے، نہایت منفی اثر ڈالا۔ ان اولمپکس میں پاکستان اور بھارت، جن میں سے ایک کا فائنل پہنچنا ایک روایت بن چکا تھا، کے بجائے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے فائنل تک رسائی حاصل کی۔ پاکستان نے پانچ میں سے تین مقابلے جیتے اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ ان ہی دنوں کرکٹ میں بین الاقوامی طور پر پچاس پچاس اوورز کے ایک روزہ میچوں کو متعارف کروایا گیا۔ ٹیسٹ میچوں کے مقابلے میں ایک روزہ کرکٹ تیز تر کھیل کے طور پر سامنے آئی۔ اس نے پاکستانی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا۔
ایک طرف 1976ء کے اولمپکس میں پاکستان پہلی مرتبہ ایک لمبے عرصے کے بعد فائنل میں پہنچنے میں ناکام رہا، تو دوسری طرف ایک روزہ کرکٹ نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی۔ گو 1984ء کے لاس اینجلس میں ہونے والے اولمپکس میں ایک مرتبہ پھر پاکستان نے جرمنی کو ہرا کر طلائی تمغہ حاصل کرلیا، لیکن دراصل یہی وہ عرصہ تھا جب پاکستان میں ہاکی کا زوال شروع ہوا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 1988ء کے سیئول میں ہونے والے اولمپکس میں پاکستان کو اس وقت نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ پانچویں پوزیشن پر جاگرا۔ اب گلی محلوں میں لڑکے ہاکی کے بجائے کرکٹ کھیلتے نظر آنے لگے۔ ہاکی کا سفر نیچے کی طرف کچھ اس طرح شروع ہوا کہ واپس نہ پلٹا۔ پاکستان، جس نے تین مرتبہ اولمپک چمپئن بننے کا اور چار مرتبہ ورلڈ چمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا، 2010ء کے بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بارہویں نمبر پہ آیا۔ پھر 2012ء میں لندن میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں ساتویں نمبر پہ جاگرا۔ ا س کے بعد سے اب تک پا کستان ورلڈ کپ کے مقابلوں میں شرکت کے لیے کوالیفائی نہ کرسکا۔
اب یہ پاکستان کی چوہتر سالہ ہاکی کی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہے۔ یہ ایک سانحہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہماری گندی سیاست ہے جو ہر شعبہ ہائے زندگی کی طرح ہاکی میں بھی موجود ہے۔ پھر فنڈز کی خصیص پنے کی حد تک کمی۔ گویا یہ ایک اور مذاق ہے۔ سیدھی سی بات ہے خالی پیٹ کبھی حب الوطنی پیدا نہیں ہونے دیتا اور بغیر حب الوطنی کے مقابلے نہیں جیتے جاسکتے ؎
جو دیس کے ہوتا ہے خوشی کا دشمن
دیتا نہیں آب و نان و کافور و کفن
جس دیس سے ملتا نہیں پیغامِ حیات
اس دیس میں اُگتی ہی نہیں حب وطن