کراچی (رپورٹ خالد مخدومی )صوبائی تعصبات کے خاتمے کا بہتریں حل ملک کو مزید صوبوں کی تقسیم ہے، قرآن وحدیث کا علم ہر قسم کے تعصبات اور تفرقہ سے محفوظ رکھتا ہے،ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی ، علاقائی ، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں سے دور رہے ، فرقہ وارانہ تعصبات، لسانی و علاقائی تفاخر اور تکفیریت پر مبنی نعروں کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے ،کوئی شخص لسانی ،صوبائی فرقہ وارانہ نفرت اور جبری بنیاد پر اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے، نفرت انگیزی انتہا پسندی اور تشدد کے فروغ سے گریز کیا جائے،قاضی حسین احمد اور مولانا شاہ احمد نورانی کی ملی یکجہتی کونسل نے بڑا مثبت کردار ادا کیا تھا ان خیالات کا اظہار ،سعودی عرب میں مقیم ممتاز صحافی محمد عامل عثمانی، معروف تجزیہ نگارسلما ن عابد،ماہر تعلیم ڈاکٹر دوست حمید نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا جس میں ان سے پوچھا گیاتھاکہ معاشرے میں موجود لسانی، صوبائی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ ماہر تعلیم ڈاکٹر دوست حمید کے مطابق پاکستان کا قیام ہر قسم کے تعصبات اور فرقہ واریت کی نفی کی داستان ہے کیونکہ تحریک پاکستان میں سارے طبقات بلا کسی مسلکی’ مذہبی اور علاقائی ونسلی امتیاز کے شامل ہوگئے تھے اور یوں یہ بڑی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی لیکن وقت گزرنے کیساتھ جب اکابرین تحریک پاکستان رخصت ہوئے اور باقی ماندہ لیڈرشپ ایسی شخصیتیں کم رہ گئیں جو قوم کی پاکستانیت کی بنیاد پر قیادت کریں تو مختلف قسم کے تعصبات سر اُٹھانے لگے۔ ان میں سب سے پہلے صوبائی اور لسانی تعصب نے سر اُٹھایا اور بابائے قوم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد اس سے عوام کو خبردار بھی کیا تھا لیکن ٹھیک 24برس بعد بنگالی قومیت اور لسانیت نے مشرقی پاکستان کو ہڑپ کر لیا ‘ یہ سب اس لیے ہے کہ لوگوں میں علم اور شعور اس سطح کی ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے جو لوگوں کو مشترکات کی فہم دے سکے۔لہٰذا اس امر کی ضرورت ہے کہ شہریوں کے علم، فہم اور شعور میں اضافے کے اقدامات کیے جائیں ،فرقہ واریت اور تعصبات سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ جب بھی کوئی ایسا مسئلہ سامنے آئے تو مطالعہ اور اہل علم سے سیکھنے اور پوچھنے سے اس کا حل ڈھونڈا جائے۔ قرآن کریم بھی یہی درس دیتا ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو اہل ذکر سے پوچھا کرو” قرآن وحدیث کا علم ہر قسم کے تعصبات اور تفرقہ سے محفوظ رکھتا ہے اور آسان نسخہ وفارمولا یہ ہے کہ شکر ہے ہم مسلمان ہیں اور مسلمان وہ ہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے کسی دوسرے مسلمان کو نقصان اور تکلیف نہ پہنچے”۔ معروف تجزیہ نگارسلما ن عابد کے مطابق پاکستان میں یہ مسئلہ چند برسوں کا نہیں بلکہ کئی دہائیوںسے بطور ریاست ہم اس مسئلے کی سنگینی کا شکار ہیں۔ اس کے پھیلائو کی ایک بڑی وجہ ماضی میں موجود ریاستی و حکومتی پالیسیوں کا بھی عمل دخل رہا ہے اور کئی مواقع پرحکمتِ عملی اور مفادات کی بنیاد پر ایسی فرقہ وارنہ اورلسانی تنظیموں سرپرستی بھی کی گئی جس کی ہمیں بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی ہے۔ پاکستان نے بطور ریاست اس کے خاتمہ کے لیے کچھ اقدامات کیے ، ان میں بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان سمیت ‘پیغام پاکستان’ جیسی اہم دستاویزات تھیں،تاہم عملی طور پر ریاست پاکستان ، حکمران طبقات، سیاست دانوں ، علمائے کرام ، میڈیا اور سول سوسائٹی سے جڑے فریقین کو اس قومی بیانیے پر جو مشترکہ جدوجہد او رکوشش کرنی چاہیے تھی ۔ صوبائی اور فرقہ وارانہ تعصبات کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ں سیاسی محاذ پر بڑی محاذ آرائی اور سیاسی تقسیم سمیت حکومت او رحزب اختلاف میں بد اعتمادی کی فضا ختم کی جائے،ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی ، علاقائی ، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں سے دور رہے ، کوئی شخص لسانی ،صوبائی فرقہ وارانہ نفرت اور جبری بنیاد پر اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے، کوئی بھی مذہبی ، سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے ،تربیت نہ دے اورجو لوگ اس عمل کا حصہ بنیں ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے سلمان عابدکا کہناتھاکہ ایک زمانے میں مرحوم قاضی حسین احمد اور مولانا شاہ احمد نورانی نے ملی یکجہتی کونسل کے نام پر جو پلیٹ فارم بنایا تھا اس نے واقعی ایک بڑا مثبت کردار ادا کیا تھا۔ مذہبی جماعتوں کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ اگر وہ اس بیانیے کو بنیاد بنا کر لوگوں میں کام کریں اور سماجی مذہبی ہم آہنگی یا رواداری پر مبنی کلچر کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں تو تبدیلی کا عمل ہمیں جلد مثبت سطح پر دیکھنے کو مل سکتا ہے ‘ ہماری ریاستی ، حکومتی یا ادار ہ جاتی پالیسی کی سوچ کسی ردعمل کی بنیاد پر نہیںبلکہ لانگ ٹرم پالیسی کا حصہ ہونی چاہیے تاکہ قومی ذمہ داری کا احساس نمایاں ہو۔ممتاز ماہر تعلیم سید احمد رشید کے مطابق پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ ہے اور دو قومی نظریہ کی بنیاد کلمہ پر رکھی گئی ہے‘آج حالات یہ ہیں کہ اِسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے اس ملک میں کہیں آزاد بلوچستان کے نعرے لگ رہے ہیں تو کہیں جئے سندھ کی بازگشت سنائی دیتی ہے؛ کہیں سرائیکستان، پختونستان کی بات ہوتی ہے اور کہیں قبیلے، ذات برادری کا ذکر ہوتا ہے۔قابل غور اَمر یہ ہے کہ ان تمام تعصبات، فرقہ وارانہ تضادات اور کشمکش و اِختلاف کی موجودگی میں اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیت نہیں سکتا۔ ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ تعصبات، لسانی و علاقائی تفاخر اور تکفیریت پر مبنی نعروں کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے اور فرقہ واریت پھیلانے والے جملہ عناصر کی سرکوبی کی جائے ۔ پسماندہ اور دور اُفتادہ علاقوں میں تعلیمی و تربیتی منصوبوں کو قبل اَز وقت ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے تاکہ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی ختم کرکے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ سعودی عرب میں مقیم ممتار صحافی محمد عامل عثمانی کے مطابق مادری زبان سے قلبی سا لگاؤہوتاہے تو کبھی کسی کی مادری زبان کی توہین نہیں ہونی چاہیے ” البتہ ملک کی عمومی رابطہ زبان کی اہمیت پر سب کا متفق ہونا اشد ضروری ہے –