افغانستان میں مغربی ممالک کا مغربی جمہوریت کا بیس سالہ نام نہاد مشن اس برق رفتاری سے طالبان کی فتح پر ختم ہوا ہے کہ ہر ایک حیرت زدہ ہے۔ طالبان کے دستے گیارہ روز کی پیش قدمی کے بعد گزشتہ اتوار کو کابل میں داخل ہوئے اور اس سے پہلے صدر اشرف غنی عوام کو اطلاع دیے اور کوئی اعلان کیے بغیر تاجکستان فرار ہو گئے طالبان کے دستوں کی برق رفتاری کے علاوہ یہ بات حیران کن ہے کہ افغانستان پر دوسرے قبضہ کے دوران بہت کم خون خرابہ ہوا۔ انیس سو چھیانوے میں جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت بڑے پیمانہ پر تباہی ہوئی تھی اور خون خرابہ ہوا تھا۔ اس وقت افغان صدر نجیب اللہ گرفتار کر لیے گئے تھے اور ان پر سخت تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اور ان کی لاش شہر کے چوک پر لٹکا دی گئی تھی۔ اس بار کابل میں صدارتی محل پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد طالبان کے ترجمان شاہین نے حکومت کے عمل داروں کو عام معافی دینے کا اعلان کیا۔ اور افغانستان میں آئندہ حکومت کی تشکیل کے لیے دوحا میں بات چیت پر آمادگی ظاہر کی۔
یہ بات امریکا کے لیے باعث خفت تھی کہ ۱۱۔۹ کی بیسویں سالگرہ سے صرف ایک مہینہ پہلے کابل میں امریکی سفارت خانے سے خفیہ دستایزات کے نذر آتش کیے جانے سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ یہ دھواں اس بات کا صاف مظہر تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکمرانی کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے اور بہت جلد افغانستان میں طالبان کی اسلامی امارت قائم ہو جائے گی۔ اس امارت میں طالبان کے رہنما عبدالغنی برادر اہم عہدہ پرفائز کیے جائیں گے جنہیں تین سال قبل امریکا کی درخواست پر پاکستان نے جیل سے رہا کیا تھا۔
گو ہیبت اللہ اخوند زادہ طالبان کے قائد مانے جاتے ہیں لیکن عبد الغنی برادر طالبان کے ترجمان رہے ہیں۔ عام توقع ہے کہ عبد الغنی برادر طالبان کا نیا چہرہ اور نئے پالیسی ساز رہنما ثابت ہوں گے۔ عبدالغنی برادر 1968 میں ارزگان کے صوبہ میں پیدا ہوئے تھا اور 1980 میں افغانستان میں سویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین میں شامل تھے۔ 1992 میں افغانستان سے روسیوں کے انخلا کے بعد جب افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس دوران عبد الغنی برادر اور اپنے برادر نسبتی ملا عمر کے ساتھ مل کا قندھار میں ایک مدرسہ قائم کیا اور اسی زمانے میں طالبان کی تنظیم منظم کی۔ اس زمانے میں عبدالغنی برادر فوجی کمانڈر رتھے اور کوئٹہ شوریٰ کے رکن تھے۔ 2018 میں صدر ٹرمپ کے افغان ایلچی زلمے خلیل زاد کی کوششوں سے عبد الغنی برادر کو پاکستان نے رہا کر دیا تھا تاکہ وہ قطر میں طالبان کے ساتھ بات چیت میں شامل ہو سکیں۔ عام توقع ہے کہ طالبان کی موجودہ قیادت جس میں عبد الغنی برادر اہم رکن ہیں طالبان کی ماضی کی قیادت کی پالیسی سے قدرے مختلف پالیسی اختیار کرے گی اور شدت پسندی سے اجتناب کرے گی۔ طالبان کے لیے افغانستان میں حکمرانی بلا شبہ ایک بڑی آزمائش ہے۔