کراچی ( رپورٹ /محمدعلی فاروق ) کراچی میں لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد کراچی کی تمام مصروف شاہراہوں پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا ،تفصیلات کے مطابق شہر قائد میںپیر کے روز بدترین ٹریفک جام رہا سڑکو ںسے ٹریفک اہلکار غائب ہوگئے، ٹریفک کے گھمبیر مسائل نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے لیکن کراچی میں صورت حال بہت ہی زیادہ خراب ہے تمام اہم شاہراہوں پر ہروقت گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں جس میں پھنسنے والے لوگ گھنٹوں گھنٹوں تک گرمی وسردی کا عذاب سہتے رہتے ہیں، ایمبولینسوں کو بھی راستہ نہیں ملا ‘صبح وقت پر اپنی دن بھر کی ضروریات کے لئے نکلنے والے ان قطاروں میں پھنس کر کبھی بھی وقت پر جائے مقصود پر نہیں پہنچ پاتے۔ کراچی میں ٹریفک جام نے عذاب کی شکل اختیار کر کے شہریوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔شہر کی اہم شاہراہوں پر ٹریفک جام کے دوران ٹریفک پولیس اہلکاروں کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا اور شہری کسی نہ کسی طرح گاڑیاں آڑی ترچھی کر کے راستے بنا کر گھروں کو پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔جس کے باعث ٹریفک جام مزید مشکلات پیدا ہوجاتیں ہیں ۔شہر کی اس صورتحال میں ٹریفک پولیس کا کردار بے معنی ہو کر رہ گیا ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ متبادل انتظام نہ کرنے کی وجہ سے ٹریفک جام معمول کی بات بن گیا ہے ۔ایمبولینس کے سائرن شور مچاتے ہیں لیکن دور تک پھیلے ہوئے گاڑیوں کے ہجوم میں ایمبولینس کو گزرنے کا راستہ نہیں ملتا پیر کے روز بھی ایم اے جناح روڈ ، آئی آئی چندریگر روڈ ، صدر کی تمام شاہرہیں، شارع فیصل ، کالا پل ، ناتھا خان روڈ ، راشد منہاس روڈ ، گلستان جوہر ، ، یونیورسٹی روڈ ، گلشن اقبال ،گرومندر،لیاقت آباد ،ناظم آباد ، تیں ہٹی ، لسبیلہ چوک ، صدر، ریگل چوک، شاہراہ قائدین اور ملحقہ سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا ، ہزاروں گاڑیاں قطاروں میں لگی راستہ ملنے کی منتظر ہیں۔ ٹریفک جام میں ایمبولینسوں کو بھی راستہ نہیں ملا اور مریضوںکو بروقت اسپتال نہیں پہنچایا جاسکا جبکہ متعدد گاڑیوں کا فیول ختم ہوگیا اور شہری گاڑیوں کو دھکا لگاتے ہوئے نظر آئے ۔ شہری سڑکوں پر بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے ۔ٹریفک کا نظام درہم برہم ہونے کے باوجود شہر کی اہم شاہراہوں پر ٹریفک پولیس اہلکار نظر نہیں آئے اور کئی مقامات پر لوگوں نے خود ٹریفک کو کنٹرول کرنا شروع کردیا ۔ ٹریفک پولیس کی نااہلی کے باعث شہریوں کو شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔شہریوں کا کہنا تھا کہ ٹریفک کے ان مسائل کے حل کیلئے حکومتی سطح پر کوئی منصوبہ سازی نظر نہیں آتی۔ ٹریفک جام میں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں تبدیل ہو جاتا ہے مگر شہری خون کے گھونٹ پینے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ ٹریفک جام کے عذاب سے بچانے کے لیے سب سے پہلے کراچی کی آبادی کا صحیح تعین کرنے کی ضرورت ہے کیوںکہ صحیح معلومات کے بغیر ٹریفک جام یا کسی بھی قسم کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن ہے،کراچی میں پرائیویٹ بسوں اور سرکاری بسوں کے نظام کا محدود ہونا بھی ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہے،یہ وجہ ہے کہ لوگ بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے پر بھی مجبور ہیں ،رکشہ اور چنگچی شہریوں کے لیے سستی سروس ضرور مہیا کررہے ہیں مگر یہ سروس کراچی کے رہے سہے ٹریفک نظام کو برباد کرنے اور حادثات کی شرح بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے،جگہ جگہ ان کے غیر قانونی اڈے اور اسٹاپ کے بغیر ہر جگہ پر ان کا سواریوں کے لیے کہیں بھی رک جانا ٹریفک کے نظام کو بری طرح متاثر کر تا ہے۔