نہیں صاحب نہیں، آپ کو گوجرانوالہ پولیس اور ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کی ایڈمنسٹریٹو مشنری کی کارکردگی کو داد دینا پڑے گی کہ پورے شہر کی چھان بین کر کے جناب ڈپٹی کمشنر کا گمشدہ کتا آخر کار ڈھونڈ نکالا۔ جی صاحب یہ کوئی ایسا ویسا کتا نہیں تھا، بلکہ اعلیٰ نسل کا جرمن شیفرڈ ڈاگ تھا۔ تو پھر مان لیجیے کہ ڈپٹی کمشنر اور ان کی فیملی کی پریشانی بجا تھی۔ اور پھر جہاں تک ان کے ایڈمنسٹریٹو عملے کا تعلق ہے تو انہیں کسی نہ کسی طور ورکنگ آورز پورے کرنا ہی ہوتے ہیں، تو پھرکتا ڈھونڈنے کی مصروفیت سے بڑھ کر ان کی کوئی اور مصروفیت کیا ہوسکتی تھی۔ ڈیوٹی کی ڈیوٹی پوری ہوئی اور صاحب بھی خوش ہوئے! تاہم ڈپٹی کمشنر صاحب کو یہ غور فرمانا چاہیے کہ آخر کتا چوری کیسے ہوا۔ کیونکہ ان کی سرکاری کوٹھی کی حفاظت تو مثالی ہوگی۔ تو پھر یہی مطلب ہوا ناں کہ گارڈز یا تو سو رہے تھے یا پھر ڈیوٹی ہی سے غائب تھے۔ مگر ڈپٹی صاحب انہیں اس کی سزا دیں تو کیونکر دیں کیونکہ خود ان کی اپنی برادری، یعنی سب بیورو کریٹس کا یہی حال ہے۔ جی ہاں، کسی بابو یعنی بیورو کریٹ کا اپنی سیٹ پر پورے آفس ٹائم میں موجود رہنا ایک معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ تب ہی تو کسی بھی سائل کی فائل مختلف میزوں پہ پڑی سڑتی رہتی ہے۔ ایسے میں رشوت کے کام میں ماہر سائل حضرات اپنی فائلوں کو پہیے لگا دیتے ہیں۔ گویا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ چاہے اسمبلیاں ہوں یا سرکاری دفا تر، ملک میں الزام سازی اور لڑائی جھگڑے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہو رہا۔ چور چوروں کے گریبان پکڑیں۔ اس جھگڑے پہ نہیں کہ لوٹے ہوئے مال کی تقسیم یکساں ہو، بلکہ یہ الزام دیتے ہوئے کہ تم نے غریبوں کا پیسہ لوٹ لیا، تمہیں کچھ خیال نہیں آیا۔ کوئی حیا ہوتی ہے، کوئی شرم ہوتی ہے۔ جواب میں جن کا گریبان پکڑا جارہا ہے کہیں تم نے بھی تو لوٹا ہے۔ فلاں موقع کا لوٹا ہوا مال کیا یاد نہیں؟ اور پھر یہ باتیں سچ بھی ہوں تو کیا کہیں گے آپ؟ لامحالہ یہ لڑائی آہستہ آہستہ اپنی شدت کھو دے گی۔ دوسرے پہ الزام لگانا، بے شک وہ حقیقت پہ مبنی ہو آسان ہوتا ہے۔ خود پہ سچے الزام کا سامنا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دھاڑتی ہوئی آوازیں سرگوشی کی صورت اختیار کرنے لگتی ہیں۔ رہے عوام، تو وہی قدرتی عوامل کے رحم و کرم پر۔ گرمی اپنے تاریخ ساز نئے ریکارڈ بناتے ہوئے آگے بڑھنا شروع ہوئی تو لوڈ شیڈنگ کے دورانیے بھی بارہ بارہ گھنٹوں تک پہنچنے لگے۔ پانی ناپید ہونے لگا۔ آلودگی سے بھر پور پانی پینے سے ہیضے کی خبروں سے اخبار بھرنے لگیں۔ تو پھر حساس شاعر یہی تو کہے گا ؎
پھر وہی گوشۂ زنداں ہے، وہی تاریکی
پھر وہی کہنۂ سلاسل، وہی خونیں جھنکار
پھر وہی بھوک سے انساں کی ستیزہ کاری
پھر وہی مائوں کے نوحے، وہی بچوں کی پکار
تو عوام تو اس قدر مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ تو اب کسی نجات دہندہ کی جانب بھی نہیں دیکھ رہے۔ آج 15 ہزا ر روپے کمانے والے 15کروڑ مزدورں کا مطالبہ ہے کہ اگر کسی کا ٹیلی فون پر وزیرِ اعظم عمرا ن خان سے ہو جائے تو وہ انہیں ہمارا یہ پیغام پہنچا دے کہ وزیر اعظم ہمیں آ ٹا، چینی، گھی سمیت زرعی اجناس کی تین سال پرانی قیمتیں واپس کر دیں۔ ہم تبدیلی سے بھر چکے۔ پٹرول کی قیمت، آٹے کی قیمت، چینی کی قیمت، اور گوشت وغیرہ کی قیمت جس سطح پہ پہنچ چکی ہے، وہ کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
ہم عوام جب اپنی غربت سے مجبور ہوکر اپنی بد نصیبی کا رونہ روتے ہیں تو ہیں طفل تسلی دی جاتی ہے کہ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم بھی اس پہ ڈینگیں مارتے چلے جارہے ہیں۔ 1970ء کی دہائی سے پہلے ہماری درسی کتاب میں ایک باب یا سبق ہوا کرتا جس میں بیان کیا جاتا کہ مغربی پاکستان کو کپاس سے مالا مال ہونے کی بنا پر چاندی کا دیس کہا جاتا ہے، اور مشرقی پاکستان کو پٹ سن سے مالا مال ہونے کی بنا پر سونے کا دیس کہا جاتا ہے۔ ہم بغلیں بجاتے رہے، سونے کا دیس ہم سے چھن گیا اور پھر چاندی کے دیس کی چاندی یعنی کپاس کی فصل کا ہم نے کیا کیا؟ ہم نے کپاس کے کھیتوں میں گنے اُگانے شروع کردیے۔ اس لیے کہ ہمارے ملک کے سربراہوں کی، بڑے بڑے سیاستدانوں کی اور بڑے بڑے کرتے دھرتوں کی شوگر ملیں ہیں۔ کپاس کے کھیتوں کی اس بربادی سے ہماری ٹیکسٹائل ملیں بند ہوگئیں۔ ہمارے مانچسٹر یعنی فیصل آباد میں بے روزگاری عام ہوگئی۔ اب بتایا جارہا ہے کہ وہاں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی آماج گاہیں پنپ رہی ہیں، مگر ہم چپ ہیں۔ ہمارے بڑے اپنی شوگر ملوں کی تعداد بڑھانے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہیں یہ فکر ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں اور زیادہ سے زیادہ گنا کیسے حاصل کیا جائے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ کس طرح طاقت کے زور پہ کم سے کم قیمت پہ، یہاں تک کہ بغیر ادائیگی کے گنا حاصل کریں۔ ہمارا کسان اس ظلم پہ دہائی دے رہا ہے، مگر ہم چپ ہیں۔ اور ہمارے ملک کے بابو لوگ ہماری فائلوں پہ سرخ فیتے لپیٹنے میں مصروف ہیں اور ان کا عملہ ان کے کتوں کی دیکھ بھال پہ جتا ہوا ہے۔