اسلام آباد(خبرایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے رحیم یار خان میں مندر پر حملے کے ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔مندر حملہ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پنجاب ، چیف سیکرٹری پنجاب ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے آئی جی پنجاب انعام غنی اور چیف سیکرٹری کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مندر پر حملہ ہوا،انتظامیہ اور پولیس کیا کر رہی تھی، ایک 8 سال کے بچہ کی وجہ سے یہ سارا واقعہ ہوا، جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی، پولیس نے سوائے تماشہ دیکھنے کے کچھ نہیں کیا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوئی، سرکاری پیسہ سے مندر کی تعمیر کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہندوؤں کا مندر گرا دیا،سوچیں ان کے دل پر کیا گزری ہو گی، سوچیں مسجد گرادی جاتی تو مسلمانوں کا کیا ردعمل ہو تا۔عدالت عظمیٰ نے شرپسندی پر اکسانے والوں کے خلاف کارروائی اور مندر بحالی کے اخراجات بھی ملزمان سے بہر صورت وصول کرنے کا حکم دیا۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ دندناتے پھرتے ملزمان ہندو کمیونٹی کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں، یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔عدالت نے کمشنر رحیم یار خان کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ علاقے میں قیام امن کے لیے ویلیج کمیٹی بنانے کی ہدایت کی اور آئی جی و چیف سیکرٹری سے ایک ہفتے میں پیشرفت رپورٹ مانگ لی۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندو بچے کا تشدد سے پیشاب نکلا تھا، دنیا بھر کی پارلیمنٹ واقعہ پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں، اقلیتوں کو تحفظ کا احساس ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 8سالہ بچے نے لائبریری میں پیشاب کیا، پولیس نے اسے گرفتار کیوں کیا؟ 8 سالہ بچے کو مذہب کا کیا پتا؟ بچے کو گرفتار کرنے والا ایس ایچ او برطرف کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ بیوروکریسی صرف تنخواہیں اور مراعات لے رہی ہے، قابل افسران ہوتے تو اب تک مسئلہ حل ہو چکا ہوتا، انتظامیہ کو فارغ کریں وہ صرف زندگی انجوائے کر رہے ہیں۔