افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

399

غزوہ احزاب
یہ غزوہ (احزاب) دراصل عرب کے بہت سے قبائل کا ایک مشترک حملہ تھا جو مدینے کی اس طاقت کو کچل دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے تحریک بنی النَّضِیر کے اْن لیڈروں نے کے تھی جو جلا وطن ہو کر خیبر میں مقیم ہو گئے تھے۔ انہوں نے دَورہ کر کے قریش اور غَلطفان اور ہْذَیل اور دوسرے بہت سے قبائل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اب مِل کر بہت بڑی جمیعت کے ساتھ مدینے پر ٹوٹ پڑیں۔ چنانچہ ان کی کوششوں سے شوال 5 ھ میں قبائل عرب کی اتنی بڑی جمیعت اس چھوٹی سی بستی پر حملہ آور ہوگئی جو اس سے پہلے عرب میں کبھی جمع نہ ہوئی تھی۔ اس میں شمال کی طرف بنی النَّضِیر اور قَینقْاع کے وہ یہودی آئے جو مدینے سی جلا وطن ہو کر خیبر اور وادی القْریٰ میں آباد ہوئے تھے۔ مشرق کی طرف سے غَطَفان کے قبائل (بنو سْلَیم، فَزارہ، مْرَّہ، اَشجع، سَعد اوراَسَد وغیرہ) نے پیش قدمی کی۔ اور جنوب کی طرف سے قریش اپنے حلیفوں کی ایک بھاری جمیعت لے کر آگے بڑھے۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد دس بارہ ہزار تھی۔
خندق
قبل اس کے کہ یہ جمِّ غفیر آپ کے شہر پہنچتا، آپ نے چھ دن کے اندر مدینہ کے شمال غربی رْخ پر ایک خندق کھْدوا لی اور کوہ سَلع کو پشت پر لے کر تین ہزار فوج کے ساتھ خندق کی پناہ میں مدافعت کے لیے تیار ہو گئے۔ مدینہ کے جنوب میں باغات اس کثرت سے تھے (اور اب بھی ہیں) کہ اس جانب سے کوئی حملہ اس پر نہ ہو سکتا تھا۔ مشرق میں حَرّات (لادے کی چٹانیں) ہیں جن پر سے کوئی اجتماعی فوج کشی آسانی کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ یہی کیفیت مغربی جنوبی گوشے کی بھی ہے۔ اس لیے حملہ صرف اْحْد کے مشرقی اور مغربی گوشوں سے ہو سکتا تھا اور اسی جانب حضورؐ نے خندق کھدوا کر شہر کو محفوظ کر لیا تھا۔ یہ چیز سرے سے کفار کے جنگی نقشے میں تھی ہی نہیں کہ انہیں مدینے کے باہر خندق سے سابقہ پیش آئے گا، کیونکہ اہل عرب اس طریقِ دفاع سے نا آشنا تھے۔ ناچار انہیں جاڑے کے زمانے میں ایک طویل محاصرے کے لیے تیار ہونا پڑا جس کے لیے وہ گھروں سے تیار ہو کر نہیں آئے تھے۔
تیز آندھی اور انجام
اب محاصرہ پچیس دن سے زیادہ طویل ہو چکا تھا۔ سردی کا زمانا تھا۔ اتنے بڑے لشکر کے لیے پانی اور غذا اور چارے کی فراہمی بھی مشکل تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ اور پھوٹ پڑ جانے سی بھی محاصرین کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ اس حالت میں یکایک ایک رات سخت آندھی کی زور سے دشمنوں کے خیمے الٹ گئے اور ان کے اندر شدید افراتفری برپا ہو گئی۔ قدرت خداوندی کا یہ کاری وار وہ نہ سہہ سکے۔ راتوں رات ہر ایک نے اپنے گھر کی راہ لی اور صبح جب مسلمان اٹھے تو میدان میں ایک دشمن بھی موجود نہ تھا۔ نبیؐ نے میدان کو دشمنوں سے خالی دیکھ کر فوراً ارشاد فرمایا: ’’اب قریش کے لوگ تم پر کبھی چڑھائی نہ کر سکیں گے۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے ‘‘۔ یہ حالات کے بالکل صحیح اندازہ تھا۔ قریش ہی نہیں، سارے دشمن قبائل متحدہ ہو کر اسلام کے خلاف اپنا آخری داؤ چل چکے تھے۔ اس میں ہار جانے کے بعد اب ان میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ مدینے پر حملہ آور ہونے کی جرأت کر سکتے۔ اب حملے (offensive) کی قوت دشمنوں سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو چکی تھی۔