لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) افغان طالبان اور عوام کے ساتھ مل کر مفاہمت کا راستہ نکال لیں گے‘ ماضی میں افغانستان کا سیکولر اور دینی طبقہ خانہ جنگی کا مزا چکھ چکا‘ سب کی اولین خواہش امن ہے‘ 3 ماہ میں معلوم ہو جائے گا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ نئی دہلی کی4 کھرب کی سرمایہ کاری ڈوب گئی‘ امریکا، بھارت، اسرائیل کا گٹھ جوڑ افغانستان میں استحکام نہیں چاہتا۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے ڈائریکٹر امور خارجہ آصف لقمان قاضی، ممتاز عالم دین پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی اور معروف کالم نویس، سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’افغانستان خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے یا نئی سیاسی مفاہمت کی جانب؟‘‘ آصف لقمان قاضی نے کہا کہ افغانستان کے لبرل، سیکولر عناصر اور دینی طبقے کے لوگ ماضی میں خانہ جنگی کا مزا چکھ چکے ہیں‘ ان سمیت عوام کی بھی اولین خواہش امن ہے اور وہ آپس کی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتے البتہ سب چاہتے ہیں کہ افغانستان کا اسلامی تشخص مجروح نہ ہو‘ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان، ایران، چین، روس، بھارت اور امریکا بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں‘ حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار سیاسی مذاکرات کے ذریعے صلح کی بات کر رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وسیع البنیاد عبوری حکومت تشکیل پا جائے‘بعض دیگر غیر جانبدار گروہ اور شخصیات بھی سیاسی مفاہمت کا راستہ تلاش کر رہی ہیںکیونکہ اس میں سب کی بھلائی ہے‘ آنے والے 2، 3 ماہ اہم ہیں‘ اب دیکھنا ہے کہ افغانستان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ فوری طور پر اس بارے میں کوئی فیصلہ کن بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ڈاکٹر اختر عزمی نے کہا کہ امید ہے افغانستان میں 1989-91ء والی صورت حال پیدا نہیں ہو گی‘ اُس وقت افغانستان کا اسلامی تاثر ختم کرنے کے لیے امریکا بھی خانہ جنگی کو ہوا دے رہا تھا اور روس کی بھی یہی خواہش تھی کہ حالات بگاڑے جائیں‘ اب امریکا منہ کی کھا چکا ہے‘ طالبان قیادت بھی اب ماضی کی طرح ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کر رہی بلکہ ان کا کردار خاصا بہتر ہے وہ مذاکرات کر رہے ہیں‘ صدر اشرف غنی کی حیثیت ہارے ہوئے جواری کی سی ہے‘ وہ اپنے کارڈ تو کھیلیں گے تاہم توقع ہے کہ حالات بہتری کی جانب جائیں گے‘ پاکستان بھی اب ماضی کی طرح طالبان حکومت کی سب چیز اپنی مٹھی میں رکھنے پر زور نہیں دے گا‘ پاکستان کا طرز عمل خاصا بہتر ہے‘ بھارت گڑ بڑ کی کوشش کر رہا ہے تاہم ایران، چین اور روس پرامن افغانستان چاہتے ہیں‘ امریکا نے پہلے مئی میں فوجیں نکالنے کا اعلان کیا پھر اسے ستمبر تک طوالت دے دی، طالبان نے اس پر دبائو تو رکھا مگر بہتر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اسے راستہ بھی دیا‘ افغانستان میں شمالی اتحاد کی پہلی والی قوت باقی نہیں رہی بلکہ شمال میں طالبان نے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے، اس وقت طالبان اور حکومت میں شامل بہت سے عناصر معاملات طے کرنا چاہتے ہیں اس لیے حالات جس جانب جا رہے ہیں‘ توقع ہے کہ طالبان اور مقامی لوگ آپس میں مل کر مفاہمت کا کوئی راستہ نکال لیں گے۔ سلمان عابد نے کہا کہ افغانستان بظاہر بڑے انتشار کی طرف جا رہا ہے جس کی اہم وجہ یہ ہے کہ امریکا، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ افغانستان میں استحکام دیکھنا نہیں چاہتا‘ بھارت کی 4 کھرب کی سرمایہ کاری اور 400 منصوبے ڈوب رہے ہیں اس لیے اس کا ایجنڈا یہی ہے کہ افغانستان غیر مستحکم رہے‘ امریکا صرف فوجی نکال رہا ہے لیکن مکمل لا تعلقی اختیار نہیں کر رہا کیونکہ اس کے خطے میں مفادات ہیں ‘ اس لیے وہ اپنا اثر و نفوذ باقی رکھے گا‘ پاکستان پر دبائو بھی ڈالا جا رہا ہے کہ وہ امن عمل میں امریکی مفاد میں کام کرے‘ افغانستان کے مستقبل کا انحصار موجودہ افغان حکومت پر بھی ہے جو پاکستان کو مسلسل تنقید کا ہدف بنائے ہوئے ہے اس لیے موجودہ حالات خاصے مشکل ہیں جن میں بگاڑ اور خرابی بہت زیادہ ہے اور افغانستان کے مستقبل سے متعلق حتمی بات کرنا قبل از وقت ہے‘ طالبان، موجودہ حکومت اور دوسری قوتوں نے مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کو اہمیت دی تو افغانستان میں امن ہو سکتا ہے بصورت دیگر انتشار اور عدم استحکام جاری رہے گا۔