کشمیر کے الیکشن کو غیر شفاف کہنے والے اتنے درست نہیں جتنا کہ خیال کر بیٹھے ہیں۔ وہ تمام کشمیری جو ایک بڑی خونریزی کے بعد پاکستان کے زیر نگیں آ گئے تھے وہ سب کے سب اس وقت سے لیکر تا دمِ تحریر حکومت وقت کے حق میں ہی فیصلہ دیتے آئے ہیں اور وہ تمام کشمیری جن پر بھارتی تسلط رہا ہے وہ سب کے سب آج کے دن تک آزادی کی جد و جہد میں مصروف ہیں اور آزادی حاصل کرنے کیلئے مسلسل قربانیاں در قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں کہیں کے بھی الیکشن ہوں ان کو “چرا لینا” کبھی مقتدر حلقوں کیلئے مشکل نہیں ریا یہاں تک کہ جو الیکشن مقتدر حلقے جیت جانے والوں کو ہرانے میں ناکام بھی ہو جاتے ہیں ان کو بھی اپنا ہمنوا بنا لینا ان کیلئے کبھی مشکل نہیں رہا۔ اب اس کو قانونی سقم کہہ لیجیے ، رعب جلال کا نام دیدیجئے یا چمک کا کمال لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو “ان” کی مرضی ہوتی ہے ہو کر وہی رہتا ہے ورنہ “رہنا” ناممکن قرار پاتا ہے ۔
پاکستان میں اقتدار پر قابض رہنا یا اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو قابوں میں رکھتے چلے آنے کی رسم اب اتنی پرانی ہو چکی ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کا جزوِ لاینفک بن کر رہ گئی ہے ۔ کشمیری اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ ان امیدواروں کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں جو اہل اقتدار کے حمایت یافتہ ہوں۔ ایسی جماعتیں جن کا تعلق حزب اختلاف سے بنتا ہو، ان کیلئے اس لئے اہمیت نہیں رکھتیں کہ وہ ان کے حقوق کیلئے آواز تو ضرور اٹھا سکتی ہیں لیکن جو مراعات ان کو اور اہل کشمیر کو حاصل ہونا چاہئیں، انھیں دلوانا ان کیلئے کسی طور ممکن نہیں۔
لاریب کہ پاکستان میں کسی بھی الیکشن کو “اغوا” کر لینا کوئی ایسی بات نہیں جس کو انہونی شمار کیا جائے ۔ ہمارے آئین اور قانون میں اتنے سقم ہیں کہ جیت کو ہار میں یا ہار کو جیت میں بدل دینا کبھی مشکل نہیں رہا۔ الیکشن ہونے سے کہیں پہلے یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ اس مرتبہ کرسی اقتدار کا بالِ ہما کس کی کلاہ کی زینت بنے گا یہی وجہ ہے کہ سیاسی گہما گہمی اور الیکشن کے نتائج کے بعد عوام حیران و پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان کے فیصلے تو کچھ اور تھے لیکن نتائج اس کے بر عکس کیسے سامنے آئے ۔
جمہوریت کیلئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ افراد کی رائے کسی کی مٹھی میں نہ دبی ہوئی ہو لیکن پاکستان میں تمام با اثر حلقوں کو اتنا مضبوط بنا کر رکھا گیا ہے کہ ان کے زیر اثر افراد کبھی اس بات کی جرات ہی نہ کر سکیں کہ وہ اپنی رائے با اثر افراد کی منشا کے خلاف استعمال کر سکیں۔ یہ تمام بااثر افراد چوہدری، ملک، سردار، خان، وڈیرے ، کارخانے دار اور سرمایہ دار کہلاتے ہیں اور ملک کی کثیر آبادی ان ہی کے زیر نگیں زندگی کی سانسیں پوری کرنے پر مجبور ہے چنانچہ الیکشن آنے سے قبل ان سب پر کام کیا جاتا ہے اور جس کو بھی مستقبل کا حکمران بنانا ہوتا ہے ، ان سارے افراد کو کسی نہ کسی حوالے سے خرید لیاجاتا ہے اور یوں “مرضی” والوں کی اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں کسی بھی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
کشمیر کے موجودہ الیکشن بھی ان ہی فنکاریوں کا مظہر ہیں۔ اس بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ “مرضی” کیا ہے اور کس کی چلتی ہے ، کشمیر الیکشن ہار جانے والوں کی دھاندلی کی شکایت کسی حد تک بے جا بھی نہیں۔ تھوڑی دیر کیلئے گفتگو کے اس تسلسل کو یہیں منقطع کرتے ہوئے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ آج کل یہ بات بہت زور پکڑتی جا رہی ہے کہ کشمیر میں ایک ریفرنڈم کرایا جائے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، بھارت سے الحاق کے خواہشمند ہیں یا پھر وہ کشمیر کو آزاد و خود مختار ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے اور کشمیریوں کی آرا کا جائزہ لیا جائے تو پھر پی ٹی آئی کی موجودہ جیت کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔ کشمیر سے پی ٹی آئی کو ملنے والے ووٹوں کی کل تعداد 6 لاکھ بنتی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے خلاف پڑنے والے ووٹ 8 لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے جس پارٹی کو نمبر ایک پر آنے والی پارٹی سے صرف ایک لاکھ ووٹ کم ملے ہیں وہ وکٹری اسٹینڈ پر نمبر 3 پر کھڑی ہے اور جس پارٹی کو نمبر ایک آنے ولی پارٹی 3لاکھ اور نمبر 3 پر آنے والی سے سے 2 لاکھ کم ووٹ کم ملے ہیں وہ وکٹری اسٹینڈ پر دوسرے نمبر پر کھڑی ہے ۔
یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ کچھ تو وہ کشمیری ہیں جو واقعی کشمیری ہیں اور اپنی سر زمین پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان پر ہر روز آہن و گولہ بارود کی بارش ہوتی رہتی ہے ۔ ہر روز وہ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہتے ہیں۔ موسم کی، سیلابوں اور زلزلوں کی سختیاں سہنے کے باوجود بھی وہ اپنی دھرتی کو چھوڑنے کیلئے تیار و آمادہ نظر نہیں آتے اور کچھ وہ کشمیری ہیں جو نام کے کشمیری ہیں اور پاکستان کے اندرونی شہروں میں رہتے ہوئے زندگی کے بھرپور مزے اٹھا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں کے جذبوں اور کشمیر سے اخلاص کو یکساں قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہی آئے گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس بات کا جائزہ ضروری ہو جاتا ہے کہ کشمیر کی حدود میں رہ کر اب تک ہر قسم کی قربانیاں دینے والوں کی اکثریتی رائے کس پارٹی کے حق میں زیادہ گئی ہے ۔
جس ریفرنڈم کی موجودہ حکمران بات کر رہے ہیں تو پھر ان کو یہ بات اچھی طرح سوچ لینی چاہیے کہ اگر بین الاقوامی ایجنڈے میں ریفرنڈم کرانا لازمی ٹھہر گیا اور یہ ریفرنڈم اقوامِ عالم کی نگرانی میں ہوا تو پھر کشمیری ان کو کہاں کھڑے ہوئے نظر آئیں گے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر قسم کے انتخابی نتائج “مرضی” والوں کی مرضی ہی کے مطابق سامنے آئیں اس لئے ضروری ہے کہ کہیں کے بھی الیکشن ہوں وہاں وہی کچھ نتائج سامنے آنے چاہئیں جو عوام کی اپنی رائے سے مطابقت رکھتے ہوں بصورت دیگر ہر آنے والے دن کے ساتھ حالات قابو سے باہر ہوتے چلے جانے کا خدشہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔