کراچی (رپورٹ خالد مخدومی) پاکستانی معاشرے کی تقوے اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل و تعمیر نہیں ہوسکی، قیادت نے حصول پاکستان کے لیے اسلام کو نعرے کے طور پر استعمال کیا، قیادت اور عوام سب کی عملی زندگیوں میں اسلامی اخلاق و کردار کا بالعموم شدید فقدان ہے، معاشی سطح پر حلال و حرام کی تمیز بڑی حد تک اُٹھ چکی ہے، مدارس کا کردار اسلامی معاشرے کی تعمیر کے حوالے سے مسلکی تقسیم و تفریق کی وجہ سے زیادہ مؤثر نہیں رہا،جبکہ آدمؑ کو اشرف المخلوقات قراردینے کی وجہ علم الاسماء کا عطا کیا جانا تھا، جب مادیت کو ترجیح دی جائے تو پھر مادیت ہی معاشرے میں جگہ بناتی ہے ۔ ان خیا لات کا اظہارمعروف دانشور اور روزنامہ جنگ کے سابق مدیر ثروت جمال اصمعی، جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم معروف عالم دین مفتی نعمان نعیم اور جمعیت اتحاد العلما پاکستان کراچی کے صدر مولانا عبدالوحید نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ثروت جمال اصمعی نے کہاکہ پاکستان مسلمانوں کا ملک اور آئینی طور پر اسلامی نظریاتی ریاست ضرور ہے لیکن 7 دہائیوں میں حکومتی اقدامات کے ذریعے سے نیک نیتی ،سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اسے حقیقی اسلامی معاشرہ بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش
نہیں کی گئی کیونکہ تحریک پاکستان کی قیادت میں شامل بیشتر عناصر وہ تھے جنہوں نے تحریک کی کامیابی کے لیے اسلام کو محض ایک نعرے کے طور پر استعمال کیا تھا اور نئی مملکت میں اسلام کا عملی نفاذ انہیں مطلوب ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے فوراً بعد ملک کو سیکولر قومی ریاست بنانے کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں لیکن دینی قوتوں نے عوام کے بھرپور تعاون سے انہیں ناکام بناکر قرارداد مقاصد کی شکل میں طے کرادیا کہ پاکستان سیکولر قومی مملکت نہیں بلکہ اسلامی نظریاتی ریاست ہے، ثروت جمال اصمعی کا کہنا تھا کہ عوامی سطح پر دیکھا جائے تو اس کے باوجودکہ تحریک پاکستان کی اصل قوت اور قیام پاکستان کا اصل سبب برصغیر کے مسلمانوں کی اسلام سے والہانہ جذباتی وابستگی ہی تھی جسے تحریک پاکستان کی قیادت نے حصول پاکستان کے لیے استعمال کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قیادت اور عوام سب کی عملی زندگیوں میں اسلامی اخلاق و کردار کا بالعموم شدید فقدان تھا۔ اس تضاد کانتیجہ یہ نکلا کہ’’مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے، من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا‘‘ کے مصداق نفاذ اسلام کی خاطر ایک الگ مملکت تو حاصل کرلی گئی لیکن معاشرے کی تقوے اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل و تعمیر نہیں ہوسکی۔ علمائے کرام اور مدارس کا کردار بھی اسلامی معاشرے کی تعمیر کے حوالے سے مسلکی تقسیم و تفریق کی وجہ سے زیادہ مؤثر نہیں رہا۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد مطالبہ نظام اسلامی کی مہم اور اسلامی دستور کے لیے تمام مکاتب فکر کے مکمل اتفاق رائے سے 33علماء کے22 نکات کے مرتب کیے جانے کے جوکارنامے انجام پائے تھے، دینی قوتوں کی تفریق و تقسیم نے آج اسلامی معاشرے کی تعمیر کی خاطر ایسی مشترکہ کوششوں کے امکانات کو تقریباً ختم کردیا ہے‘ جدید ذرائع ابلاغ ، سوشل میڈیا، بے حیائی کے فروغ کی علم برداراشتہاری صنعت، بے لگام نجی تعلیمی ادارے اور خود حکومتی پالیسیاں ملک میں ہر قسم کی اخلاقی بے راہ روی کو فروغ دینے میں دن رات مصروف ہیں۔یہ وہ اسباب ہیں جن کے باعث کرپشن یعنی ناجائز ذرائع سے مالی مفادات حاصل کرنا عملاً جرم نہیں ہنر سمجھا جانے لگا ہے، ماضی میں بدعنوان اور بدکردار لوگ معاشرے کی جانب سے مسترد کردیے جاتے تھے ، انہیں اپنا منہ چھپا کر چلنا پڑتا تھا لیکن آج سینہ تان کر چلتے ہیں کیونکہ معاشی سطح پر حلال و حرام کی تمیز بڑی حد تک اُٹھ چکی ہے، جنسی جرائم بھی ان ہی اسباب سے ہولناک رفتار سے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے معاشرے میں علم اور تقویٰ کے بجائے دولت اور طاقت ہی معیار قرار پاتے ہیں کیونکہ یہی چیزیں اس معاشرے کی ضرورت ہوتی ہیں۔ ثروت جمال اصمعی کے مطابق صورت حال کو مثبت طور پر تبدیل کرنے کے لیے اسلامی قوتوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر حقیقت پسندانہ خود احتسابی کے ذریعے سے اب تک کی جدوجہد کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے میں اپنی حکمت عملی کی خامیوں کا تعین و ازالہ اور پھر درست خطوط پرمشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی ۔سید مودودیؒ کے بقول ’’ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی ،اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے‘‘ (اسلامی ریاست، ص:(743۔ اس تمدنی اور اخلاقی انقلاب کا راستہ دعوت اور تربیت کے ذریعے سے معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کا ہے، معاشرے کی قیادت میں اسی طرح بامعنی اور جوہری تبدیلی آسکتی ہے اور ایسے ہی معاشرے میں دولت اور طاقت کے بجائے علم و تقویٰ کو معیار فضیلت قرار دیا جاتا ہے ۔جمعیت اتحاد العلماپاکستان کراچی کے صدر مولانا عبدالوحید نے کہاکہ دنیاکی اکثریت نے کامیابی کا معیار دولت اور طاقت کو گردانا ہے کیونکہ دولت اورطاقت مادی چیز ہے اور نظر آتی ہے لہٰذا لوگ اس کی طرف جلد مائل ہوجاتے ہیںاور اب یہی کمزوری اب پاکستانی اسلامی معاشرے میں در آئی ہے اور اب علم وتقوی کے بجائے دولت اور طاقت پاکستان میں معیار بن چکی ہے مولانا عبدالوحید کا کہنا تھاکہ اگر اسلامی تعلیمات کو دیکھا جائے تو معیار تو علم اور تقوی ہی ہے اللہ نے جب آدم کو پیدا خلق کیاتو ا س کودیگر مخلوقات پر ترجیح دیتے ہوئے ایسے اشرف الخلوقات قراردیاتو ا س کی وجہ صرف یہ تھی کہ اللہ نے آدم کو علم عطا کیا تھااوراسی لیے آدم کو مسجود الملائک بنایا اور فرشتوں کو بتایا کہ میں نے آدم کواسماء کے نام بتائے اور علم عطا کیا اس موقع پراللہ نے فرشتوں سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھاکہ ہم نہیں جانتے ہم کو صرف اتنا ہی علم جتنا آپ نے عطا کیا ہے ،تو اس طرح یہ بات طے ہوگئی معیار صرف علم اور تقوی ہے مولا نا عبدالوحید کا مزید کہنا تھاکہ اسلام کے معاشرتی اقدار سے دوری کی بناء پر معاشرے میں علم اور تقوی کی کو معیار بنانے کے بجائے دولت اور طاقت کومعیار بنالیا گیا ہے جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم معروف عالم دین مفتی نعمان نعیم نے کہاکہ دین سے دوری بڑھتی جارہی جس کی وجہ سے معاشرہ دین سے دور ہوتا جارہاہے، یہی مادیت پرستی اور ظاہری طاقت پر انحصار کا باعث بن رہا ہے۔ معاشرے کے اندر جب مادیت کو ترجیح دی جائے تو پھر مادیت ہی معاشرے میں جگہ بناتی ہے، آج ہمارے اس نظام میں دیکھ لیں اپنا جائز کام کرانے کے لیے بھی آپ کے پاس طاقت یا پیسہ ہونا ضروری ہے ‘ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی ایسا نظام نہیں جو عوام کی اس نہج پر تربیت کا سامان بنے جو اسلامی معاشرہ میں ہونی چاہیے،مفتی نعمان نعیم کاکہناتھا کہ صرف امام مسجد یا مولوی مدرسہ یا درسگاہ کاکام نہیں کہ وہ معاشرے میں خوف خدا اور علم کو فروغ دیں بلکہ معاشرے کی ہر اکائی بالخصوص نظام کی بڑی ذمہ داری ہے،کیونکہ نظام ہی کسی بھی معاشرتی تربیت میں اہم کردار ادا کرتاہے۔آپ صحابہ کرام کا زمانہ دیکھیں کیسی تربیت کا انتظام تھا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور کا مشہور واقعہ ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہْ مدینے کے اک کوچے سے گذر رہے تھے ایک گھر سے ماں بیٹی کے تکرار کی آوازیں آرہی تھی۔ ماں بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کا کہہ رہی ہے اور بیٹی انکار کررہی ہے، ماں کہتی ہے خلیفہ نہیں دیکھ رہا کوئی دوسرا بھی نہیں جو شکایت لگائے گا، بیٹی کہتی ہے، اماں عمرتونہیں دیکھ رہا مگر میرا خدا تو دیکھ رہا ہے، ملاوٹ سے منع تو خدا نے کیا ہے، یہ تھا اس تربیت کا نتیجہ ہمیں بھی اپنے معاشرے کو سدھارنے کے لیے اسی طرح تربیت کرنی چاہیے۔